نو مئی کے واقعات سے استوار ہوئی غضب کی فضا

خدارا سوشل میڈیا پر حاوی فروعات کو سختی سے نظرانداز کرتے ہوئے تلخ حقائق کا سامنا کریں۔ اس بات کا ادراک کرلیں کہ نو مئی کے روز ہوئے واقعات نے ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کو غضب ناک بنادیا ہے۔ وہ ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہے کہ ریاستی قوت کا وہ حتمی حامل ہے۔اسے ’’بلوائیوں‘‘ کے گروہ جھکا نہیں سکتے۔ 9مئی کے روز ایسی ہی ایک کوشش ہوئی تھی۔اس کے ’’منصوبہ ساز،سہولت کاروں اور کارندوں‘‘ کواب ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔
پیر کی سہ پہر عسکری ادارے کے ترجمان نے ایک طویل پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔اس کے دوران اپنایا لہجہ اور زبان یقینا غضب ناک تھی۔عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں اس کی بابت ہرگز حیران نہیں ہوا۔رواں مہینے کے پہلے ہفتے کے اختتام پر فارمیشن کمانڈرز کا اجلاس بھی ہوا تھا۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے مقابلے میں یہ ایک وسیع تر فورم ہے۔ مذکورہ اجلاس کے اختتام پر جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس کے متن کو میں نے بہت توجہ سے پڑھا تھا۔اس کے لئے چنے الفاظ نے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کردیا کہ نو مئی کے واقعات نے ’’وہاں‘‘ غضب کی فضا بنادی ہے۔ اس کے عملی اظہار کیلئے لہٰذا تیار ہوجائیں۔
مذکورہ تناظر میں جوکالم لکھا تھا اس کے بعد مجھے پیر کی سہ پہر ہوئی پریس کانفرنس نے ہرگز حیران نہیں کیا۔ کلیدی’’خبر‘‘ میری دانست میں اس کے ذریعے یہ فراہم ہوئی کہ نو مئی کے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے ریاست کے طاقت ور ترین ادارے نے سب سے پہلے ’’اپنے گھر‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ ’’کوتاہی‘‘ کے مرتکب ہوئے افراد کی نشاندہی کی اور سینئر ترین عہدوں پر فائز 20کے قریب افسران تادیبی کارروائی کا نشانہ بنے۔حاضر سروس افسران کی نشان دہی اور ان کے خلاف لئے اقدامات کے علاوہ نومئی کے واقعات میں ملوث ہوئے ان افراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جو معتبر فوجی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔اس ضمن میں خواتین کے ساتھ بھی درگزر سے کام نہیں لیا گیا۔
’’اپنے ہاں‘‘ ہوئی صاف ستھرائی کے تفصیلی ذکر نے ریاست کے دیگر ’’ستونوں‘‘ کو واضح طورپر پیغام دیا ہے کہ وہ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو فوجی عدالتوں سے بچانے کے لئے آئین پاکستان کے ذریعے کوئی راستے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔ ویسے بھی جو کارروائی ہورہی ہے وہ پاکستان ہی کے بنائے قوانین کے مطابق ہے۔ 1952کا بنایا ملٹری ایکٹ اس ضمن میں اہم ترین ہے۔اس کے علاوہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ بھی ہے۔
یہ بات بھی پیر کے روز ہوئی پریس کانفرنس کے بعد عیاں ہوگئی ہے کہ نو مئی کے واقعات نے غضب کی جو آگ بھڑکائی ہے اس کا نشانہ کرکٹ کی بدولت مشہور ہوکر سیاست میں آئے کرشمہ ساز اور ان کی بنائی جماعت کے اندھی عقیدت میں مبتلا رہ نما اور کارکن ہوں گے۔ مذکورہ جماعت کے کئی سرکردہ رہ نما پہلے سے ہی خود کوغضب سے بچانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر اپنے قائد سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔ گمنام نوجوان اور خاص طور پر پڑھی لکھی خواتین عقیدت مندوں کو البتہ یہ سہولت میسر نہیں۔انہیں لاہور کے زمان پارک میں قائد کے آبائی گھر کے باہر جمع ہوا ہجوم تحفظ کا احساس فراہم کرتا تھا۔ 9مئی کے بعد مگر وہاں کی گلیاں اب ’’سنجیاں‘‘ ہوچکی ہیں۔ ’’خوف کے بت توڑ دو‘‘ کو اْکسانے والے صاحب بذاتِ خود جس انداز میں عدالتوں کے روبرو پیش ہوتے ہیں وہ انہیں جان بچانے کے خوف میں مبتلا ہوا دکھاتا ہے۔ ’’آتش نمرود‘‘ میں ’’بے خطر‘‘ کودنے کا ماحول نہیں بناتا۔ ایسے میں یہ نوجوان اور خواتین عقیدت مند خود کو لاوارث محسوس کررہے ہیں۔
مجھ جیسے ’’لفافہ‘‘ صحافی ان کی نفرت کا کئی برسوں سے نشانہ رہے ہیں۔اس کے باوجود میں ان دنوں خود کو لاوارث محسوس کرتے نوجوان اور خواتین کارکنوں کے بارے میں نہایت خلوص سے فکر مند محسوس کررہا ہوں۔انہیں فقط ’’کرشمہ ساز‘‘ ہی نے ’’گمراہ‘‘ نہیں کیا تھا۔ان دنوں نہایت غضب ناک ہوئے ادارے کے چند سرکردہ حضرات بھی 2011سے ایک ایسے نفرت انگیز بیانیے کو فروغ دینے کے عمل کی بھرپور سرپرستی فرماتے رہے جس کے ذریعے وطن عزیز کے تمام سیاستدانوں کو بلااستثناء بدعنوان اور نااہل ثابت کردیا گیا۔’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ لڑنے کے بہانے نوجوانوں کی ایک کھیپ بھی تیار ہوئی جو مذکورہ بیانیے کو سوشل میڈیا کے ذریعے مزید غضبناک بناتی رہی۔
تمام سیاستدان ’’چور اور لٹیرے‘‘ ثابت ہوگئے تو ’’کرشمہ ساز‘‘ کو ’’دیدہ ور‘‘ بنانے کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔ 2018ء میں بالآخر وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے تو کم از کم دو برس تک ’’سیم پیج‘‘ کی برکتوں سے مالا مال بھی ہوتے رہے۔اپنے ہاتھوں سے بنایا ’’جن‘‘ مگر 2021ء کے وسط سے بے قابو ہونا شروع ہوگیا۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے فارغ ہوا تو اپنے وعدے کے عین مطابق ’’مزید خطرے ناک‘‘ ہوکر ’’امریکی سازش‘‘ اور ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے خلاف دہائی مچانا شروع ہوگیا۔
غضب کی موجودہ لہر گزرجانے کے بعد لازمی ہے کہ اپریل 2022ء سے مسلسل ہوئی ’’ذہن سازی‘‘ کے اسباب اور سہولت کاروں پر بھی تھوڑی توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ سیکھ لیا جائے کہ ’’بیانیے‘‘ ایجاد نہیں ہوتے۔ سیاسی فکر اور سوچ ’’فطری‘‘ طورپر پنپنے میں بہت دیر لگاتی ہے۔ اسے ’’اوپر‘‘ سے پوری قوم پر نازل کیا نہیں جاسکتا۔ دوسرا سبق یہ بھی سیکھنا ہوگا کہ جمہوری عمل ’’تنوع‘‘ اور ’’متوازی نظریات‘‘ کا دلائل کے ذریعے ٹکرائو کا نام ہے۔اس عمل کو روک دیا جائے تو ’’کرشمہ ساز‘‘ بالآخر ’’دیدہ ور‘‘ نہیں رہتے’’مزید خطرے ناک‘‘ بن جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...