اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کے استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ حکم امتناعی جاری نہیں کیا، امید ہے ملزمان کا فوری ٹرائل نہیں ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل جنگی حالات میں ہوسکتا ہے لیکن جنگی حالات نہ ہوں تو سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔ فوجی عدالتوں کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے کی۔ دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے بھی اس کیس میں درخواست دائر کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی ہے سپریم کورٹ بار بھی کیس میں فریق بن رہی ہے، اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے۔ جب آپ کی درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد عمران کے وکیل نے کہا کہ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کیخلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے، یہ پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے‘ وکیل نے کہا کہ میرا موقف ہے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، فوجیوں کے ٹرائل اور عدالت کے اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا۔ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اندرونی تعلق کے بارے میں جنگ کے خطرات دفاعِ پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلاکر پوچھا کہ بتائیں ملزموں کے خلاف کون سا قانون استعمال کیا جارہا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9 مئی واقعات سے جڑے ملزموں کے خلاف ٹو ڈی ٹو کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، ٹو ڈی ون کے تحت ان ملزموں کا ٹرائل ہوتا ہے جن کا فوج کے ساتھ تعلق ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہورہی ہیں۔ وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندرآسکتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، دیکھنا ہوگا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ججز کی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، جن عدالتی نظائر کی بات آپ کر رہے ہیں اب حالات و واقعات یکسر مختلف ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسروں کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟۔ عزیز بھنڈاری نے کہا کہ فوجی جوانوں اور افسروں پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی علی کیس کہتا ہے کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہوگا جس پرٹرائل ہوگا۔جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جوکچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہوسکتا ہے۔ آئین ، ہمارے بنیادی حقوق، قوانین سب ارتقائی مراحل سے گزرکرمختلف ہوچکے ہیں۔ اب آئین میں آرٹیکل 10-A شامل ہے جسے دیکھنا ضروری ہے۔ یہ آرٹیکل فئیر ٹرائبل سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچرکی بات کرتا ہے اورآرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یہ تمام آرٹیکل الگ الگ سہی مگر آپس میں تعلق بنتا ہے۔ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے۔ سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا اور کسی نے بھی خوشی سے اس کی اجازت نہیں دی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ ہم ہوا میں بات کررہے ہیں، ٹو ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں معاونت کرنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔ عزیز بھنڈاری نے عدالت میں سیکشن ٹو ڈی پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ آرمی والے کی بات کرتے ہیں تو سب سے اہم چیزمورال ہوتی ہے۔ اگرمورال متاثرہوتا ہے تو اسکا فائدہ دشمن کو ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے اس پر ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔ اس کے بعد سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟۔ جس کا عمران خان کے وکیل نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آرمیں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں، ایکٹ میں ترمیم کر کے انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، سقم قانون میں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا، یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔ وکیل نے افسروں کی جانب سے ملزموں کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بیکار ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ان مقدمات میں تو ملزموں پر الزام ہی نہیں تھا، ملزموں پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں اور پھر تحقیقات کرتے ہیں۔ عمران خان کے وکیل عزیز بھنڈاری نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں جن سے بدنیتی اخذ کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر اٹارنی جنرل حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو بتائیں۔ جسٹس عائشہ نے بھی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہے۔ جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں تمام ریکارڈ تحریری طورپر جمع کرا دوں گا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ملزموں پر چارج فریم ہو گیا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے انہیں بتایا کہ چارج فریم نہیں ہوا، الزامات کی بنیاد پر کارروائی ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے زیرحراست 102افراد کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ اس وقت 102ملزم ادارے کی تحویل میں ہیں، ملزموں کو گھر والوں سے فون پربات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ملزمان کو اہلخانہ سے ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہوگی۔ چیف جسٹس نے سربمہر لفافہ کھول کر تفصیلات دیکھتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا گرفتار لوگوں کو خوراک فراہم کی جا رہی ہے؟۔ میں نے کچھ جیلوں کا دورہ کیا، وہاں بھی ملزموں کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزموں کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے۔ کھانا محفوظ ہے یا نہیں، اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی منتقل ہوجائے گی۔ جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا کہ 102ملزم کون ہیں، کیا ان افراد کی فہرست کو پبلک کرسکتے ہیں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی نہیں، ابھی وہ زیرتفتیش ہیں۔ بعدازاں کیس کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔ عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ہے کہ زیر حراست کسی فرد کا فوری ٹرائل ہوگا نہ ہی سمری ٹرائل ہوگا، کسی بھی زیر حراست شخص کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، وکیل مقرر کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اہل خانہ کو بیان کی کاپی بھی فراہم کی جائے گی۔
سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس فل بینچ بنائیں ورنہ فیصلہ وقعت کھو بیٹھے گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج سمیت بینچ میں شامل دیگر ممبران کے تحریری اعتراضات بھی سامنے آچکے ہیں۔ موجودہ بینچ کو فوری توجہ اور چیف جسٹس کی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں مزید کہا ہے کہ نظام انصاف کی بنیاد عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس فل کورٹ بینچ تشکیل دیں، نظام عدل کی ساکھ کی عمارت عوامی اعتماد پر کھڑی ہے، موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے اور اس وقت ملک میں انتخابات کے لیے سیاسی ماحول کا منظرنامہ چارج ہے۔ تحریری حکمنامے کے نوٹ میں لکھا ہے کہ ایسے سیاسی چارج ماحول میں موجودہ عدالتی بینچ کے خلاف اعتراض کیا جا سکتا ہے اور فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سننے والے بینچ میں موجود ججز کے تحریری اعتراضات انتہائی سنجیدہ ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس یحییٰ