کول پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے سے چلایا جائے۔ وزیراعظم۔
دنیا بھر میں کوئلہ سے بجلی گھر چلانے کی شرح کم سے کم ہو رہی ہے۔ مگر ہم ابھی تک اس طریقے سے بجلی بنا رہے ہیں اور یہ کوئلہ بھی وہ جو باہر سے منگوانا پڑتا ہے جو ظاہر ہے مہنگا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں پایا جانے والا کوئلہ اس قابل نہیں کہ وہ پاور پلانٹ چلانے میں زیادہ بہتر ثابت ہو۔ اس لیے باہر سے اچھا اعلیٰ کوالٹی والا کوئلہ منگوانا پڑتا ہے۔ اب وزیر اعظم نے تمام پاور پلانٹس مقامی کوئلہ سے چلانے کا حکم دیا ہے تاکہ بیرون ملک سے کوئلہ منگوانے پر جو بھاری زرمبادلہ خرچ ہو سکتا ہے وہ بچایا جا سکے۔ مگر اس مسئلے کا اصل حل کیوں نہیں نکالا جاتا کہ بجلی پیدا کرنے کے ان مہنگے کول پاور پلانٹ اور ڈیزل پر چلنے والے نجی بجلی گھروں کے بھاری اخراجات سے مکمل جان چھڑائی جائے۔ یہ نا صرف ماحول کے لیے بہتر ہو گا بلکہ عوام کو بھی دوسرے ذرائع سے سستی بجلی فراہم کی جا سکے گی ملک میں ہمارے پاس بے شمار آبی وسائل موجود ہیں جہاں سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، کالا باغ ڈیم کے نام سے اگر کسی کو موت آتی ہے تو اس کو آنے دیں اس کی تعمیر سے بجلی ہی سستی نہیں ہو گی زراعت کے لیے پانی بھی وافر دستیاب ہو گا۔ اس طرح تیز بہاﺅ والے پہاڑی دریاﺅں ندی نالوں سے بھی چھوٹے ٹربائن لگا کر دنیا بھر میں بجلی حاصل کی جاتی ہے تو ہم کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہ بھی اختلافی معاملہ ہے۔ اب تو سولر انرجی سسٹم کے علاوہ ہوا سے بھی بجلی حاصل کرنے کے پلانٹس دنیا بھر میں لگائے جارہے ہیں۔ اس طرف آنے سے ہمیں کون روکتا ہے۔ ہمیں سورج اور ہوا بھی قدرت نے وافر مقدار میں عنایت کی ہے مگر ہم شاید اپنے فائدے کے لیے ان سے فائدہ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ اب کافی پرانا ہو چکا ہے مگر ہم ابھی تک اسے گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے 21 ارکان کا نیا گروپ بننے کا امکان۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بلکہ سچ کہیں تو ملک میں اپوزیشن ہے ہی وہی یعنی پی ٹی آئی باقی سب جماعتیں تو شامل باجا ہیں یا باراتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس میں موجودہ قیادت یعنی بیرسٹر سیف اور عمر ایوب کی مصلحاتی من پسند پالیسیوں سے پی ٹی آئی کے بے شمار عہدیدار اور ایم این ایز خوش نہیں ہیں۔ پارٹی کی اکثریت عوامی سطح پر بانی کی رہائی کے لیے زور دینا چاہتی ہے۔ اب یہ گروپ جو موجودہ قیادت سے نالاں ہے اپنا دھڑا بنا رہا ہے جس میں فی الحال 21 ارکان شامل ہیں جن کی قیادت شاندانہ خان اور شیر افضل مروت کے علاوہ شہریار آفریدی کر رہے ہیں جو پارٹی کے اندر مضبوط سمجھے جاتے ہیں۔ اس اندرون خانہ اختلاف سے موجودہ قیادت پریشان ہے اور انہوں نے ناراض ارکان سے کہا کہ اختلافات پارٹی کے اندر رہ کر دور کئے جائیں کیونکہ عوام کے سامنے اختلاف کے اظہار سے پارٹی پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی میں سخت گیر موقف رکھنے والوں اور اعتدال پسندوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ دیکھنا ہے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
کچے کے علاقے اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ حکومت سندھ۔
خدا جانے سندھ کے وزیر اعلیٰ اور وزرا یہ بات کس تناظر میں کر رہے ہیں۔ کراچی میں روزانہ سٹریٹ کرائم ہو رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ روزانہ درجنوں نہیں سینکڑوں وارداتوں میں شہری بلاتفریق مرد و زن لٹ رہے ہیں۔ نقدی، موبائل فون، موٹر سائیکل ، زیور اور گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔ ذرا سی بھی اگر کوئی مزاحمت کرے اسے بے دریغ نہایت بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اغوا زیادتی اور تاوان کے کیس بھی لگتا ہے کہ یہ کراچی کا ج±زلاینفک بن چکے ہیں۔ اگر اس کے باوجود حکمرانوں کو سب اچھا لگ رہا ہے تو یہ ان کا حسن نظر ہے یا نظر کی کمزوری کہ انہیں سب ساون کے اندھے کی طرح ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا۔ مریض بھی وہی ہے اور علاج کرنے والا ڈاکٹر بھی وہی تو پھر مرض ختم نہ سہی کم کیوں نہیں ہو رہا۔ کیا پولیس اور سیاستدانوں پر وڈیروں پر یہ الزامات درست لگائے جاتے ہیں کہ وہ بھی ان جرائم پیشہ عناصر سے ملے ہوئے ہیں۔ ورنہ 15 سال سے زیادہ ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا۔ نہ کچے کے ڈاکو قابو میں آ رہے ہیں نہ کراچی کے۔ پورا سندھ ہی لگتا ہے ڈاکوﺅں اور چوروں کے نرغے میں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکمران صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہوئی تو حکومت کا موقف یہی رہا کہ حالت بہتر ہوتی ہے مگر کہاں۔ یہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک روز پہلے کا ہی کراچی شہر میں جرائم کا ریکارڈ چیک کر لیں سر چکرانے لگے گا۔ آنکھوں تلے اندھرا چھا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی نہ مانے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ ”خود راہ گم کردہ علاج نیست“ اسی لیے کہا جاتا ہے۔
آصفہ بھٹو کا بطور رکن اسمبلی تنخواہ اور مراعات نہ لینے کااعلان۔
رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹونے اعلان کیا ہے کہ وہ بطور رکن اسمبلی تنخواہ نہیں لیں گی۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ویسے بِھی ہمارے تمام ارکان اسمبلی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔انہیں کوئی مالی پریشا نی بھی نہیں کہ وہ اس کا انتظار کریں۔کہ تنخواہ
آئے گی توگھر چلے گا۔اس لئے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام ارکا ایسا ہی اعلان کریں تاکہ عوام کو احساس ہوکہ ان کے نمائندوں کو بھی عوام کی تکالیف کا احساس ہے۔ور نہ دیکِھ لیں۔
گزشتہ دنوں کینیا میں ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف جس طرح کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ احتجاجی مظاہرے اور جلاﺅ گھیراﺅ میں 23 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اب کینیا والے معاشی طور پر ہم سے کافی کمزور ہیں اس لیے ٹیکسوں میں اضافے کے پہلے ہی ھِلہ میں بپھر پڑے۔ ہم لوگ شاید مالی طور پر بہت مستحکم ہیں اس لیے پے درپے ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود خاموش ہیں اور صبر سے ہر تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ کم از کم حکومت پاکستانیوں کی اس حب الوطنی کا تو احساس کرتے ہوئے انہیں باہر نکلنے سے قبل ہی رعایت دے۔ ورنہ اپوزیشن والوں کو کینیا کے واقعات سے محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے ہمارے عوام بھی جاگ جائیں گے اوراسی طرح باہر نکل آئیں گے ورنہ ہمارے لوگ تو نیا پل بنانے اور سزا دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کا ہی سوچتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کب کس میں ہمت ہوتی کہ وہ یوں اندھا دھند بجلی، گیس اور پانی کے ریٹ بڑھاتا اور ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عوام کا بھرکس نکالتا گرمی کی وجہ سے ویسے بھی لوگوں کا پارہ ہائی ہے جسے مہنگائی مزید بھڑکا رہی ہے۔ ایسے میں کم از کم حکومت خود ہی خیال کرے اور ٹیکس کچھ نہیں تو کم از کم بجلی کے بلوں کو ہلکا کر دے تاکہ لوگوں کو ریلیف ملے ورنہ دمادم مست قلندر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جس کا اس وقت ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپوزیشن تو چاہتی یہی ہے کہ ایسا ہو اور ان کو فائدہ پہنچے۔