مولانا فضل الرحمان جن کی پارٹی اور ذات خود کئی دفعہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہے ان کی آپریشن عزم استحکام کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف افواج ِ پاکستان کے پہلے کیے جانے والے آپریشنز کی طرح آپریشن عزم استحکام کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ نہایت افسوس سے یاد دلانا پڑ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں افواج نے جتنی تعداد میں جانوں کے نذرانے پیش کر کے وطن اور وطن کے باسیوں کی حفاظت کی اس کا اعتراف تمام دنیا نے کیا ہے۔
وزیر اعظم ہاو¿س پاکستان کی طرف سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق ، ” ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وڑن کو، جس کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ ضرب عضب، راہ نجات جیسے سابقہ مسلح اپریشنز کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ سابقہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات جو نو-گو علاقے بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے سے دہشت گردوں کو ہٹا کر انہیں جہنم واصل کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دھشتگردی کے عفریت کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی۔ لیک آج اس وقت ملک میں ایسے کوئی نو-گو علاقے نہیں ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گزشتہ مسلح آپریشنز کے ذریعے فیصلہ کن طور پر شکست دی جا چکی ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان میں آپریشن عزم استحکام دراصل پائیدار امن و استحکام کے لیے مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کاایک کثیر جہتی، مجموعی قومی وڑن ہے۔ اس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔ عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔
ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کیلئے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کئے گئے اس مثبت اقدام کی پذیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے “۔
اس سے تو صاف یہ لگ رہا ہے کہ جو سیاستدان اقتدار میں نہیں اس کے لیے ملک کی حفاظت بھی بے معنی و بے فائدہ ہے۔ ایک سوال جس کا جواب اب ہر پاکستانی مانگ رہا ہے کہ پچھلے ستر سال سے جاری سیاسی اکھاڑہ کب ختم ہوگا۔ جب سے پاکستان بنا ہے جو بھی حکومت ہو اور جو بھی اپوزیشن ہو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت نے من مانی کرنی ہے اور اپوزیشن نے اختلاف کرنا ہے۔ دہشت گردی جیسی لعنت پر سیاسی سکورنگ کرنے سے زیادہ تباہ کن عمل کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ مہنگائی گردی پر خاموش رہنے والے فضل الرحمٰن دہشت گردی کے خلاف ریاستی آپریشن کی مخالفت میں میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ حکومت میں ہوتے تو کیا پھر بھی ایسا کرتے۔ صرف فضل الرحمٰن ہی کیا، سب کا یہی حال ہے۔ کم از کم ہمیں یہ تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم آج تک کسی ایک معاملے میں بھی قومی اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ مجھے تو لگتا ہے موجودہ حکومت کی کمزوری ہے کہ وہ خود اپنے سابق حلیف کو ملکی دفاع پر بھی قائل نہ کرسکے۔
جو حکومت بجلی مہنگی کرنے کے بعد سولر پر بھی ٹیکس عائد کرنا چاہے اس کا مطلب اسکے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی ہر پالیسی کے پسِ پردہ مقصد ملک چلانا نہیں بلکہ عوام کو اذیت دینا اور کچلنا ہے۔ ورنہ متبادل سورس کا مطلب آسانی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ عوام کو ناجائز منافعے پر بجلی بیچنے والے سیاسی خاندان جو وحشت گردی کر رہے ہیں ، کیا حکومت میں اتنی جرا¿ت ہے کہ وہ یہاں بھی کسی اجتماعی دانش اور قومی اتفاق ِ رائے کا مظاہرہ ممکن بنائے۔ پاکستان پچھلی تین دہائیوں سے چو طرفہ دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے۔ ہم ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرے بحران میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس پر بھی اجتماعی دانش اور قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ہزاروں فوجی جوانوں کی شہادتیں کیا رائیگاں جانے کی لیے پیش کی گئی ہیں کہ فوجی آپریشنز پر انگلی اٹھائی جائے۔ فضل الرحمٰن یاد کریں جب ہر طرف سے یہ گونج سنائی دے رہی تھی کہ دہشت گرد اسلام آباد میں گھسنے والے ہیں۔ کراچی کی صورتحال کیا اتنی جلدی بھلا دی گئی ہے۔ وزیرستان اورسوات کے حالات اتنی جلدی آنکھوں سے اوجھل ہوچکے ہیں ؟ کیا صرف اس لیے کہ آپ اقتدار میں نہیں۔
جب تک فرض پر آسائش کو ترجیح دی جاتی رہے گی نہ قومی اتفاق رائے پیدا ہوسکے گا نہ کوئی اجتماعی دانش سامنے آئیگی۔ کتنی سامنے کی بات ہے ملک کو کالا باغ ڈیم کی لائف سیونگ میڈیسن کی طرح ضرورت ہے لیکن کوئی ہمت نہیں کر سکا۔ یہ ہے ہماری اوقات۔ ہمارے دعوے اور قومی احساس۔ ہماری تمام تر بیماریوں کی جڑ ووٹ کا کھوٹ ہے۔ ووٹ کی سچائی سے بڑھ کر نہ کوئی اجتماعی دانش ہے اور نہ کوئی قومی اتفاق ِ رائے۔ جب ہم سب نے ہی اس بنیادی بیماری کو قبول کر رکھا ہے تو باقی چاہے کوئی ایک لاکھ علاج بتاتا رہے کسی کی بات میں وزن پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ آج اگر ہمارے محترم مولانا الیکشن جیتنے والوں میں شامل ہوتے اور ذاتی خواہش کے مطابق صدر مملکت بنا دیے جاتے تو انکے نزدیک تمام کے تمام فوجی آپریشنز برمحل ، برموقع اور عظیم کارکردگی میں ڈھل چکے ہوتے۔ اسے کہتے ہیں چاروں طرف ہے برف برابر پڑی ہوئی۔ کسی ایک طرف سے سکھ کا سانس آئے تو لوگ بھی کسی ایک طرف لگیں۔ اب اگر بین الاقوامی انویسٹمنٹ میں سہولت کونسل کی طرف سے کوئی امید لگی تھی تو دہشت گردی مسلط کردی گئی۔ اس سے نمٹیں گے تو کوئی نیا بحران کھڑا کریا جائیگا۔ ہم تو یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ساری دنیا الٹی لٹک جائے ہمیں ہندوستان کی طرف سے خیر کی خبر آ ہی نہیں سکتی۔ نہ کبھی سودی پیسے کرائے پہ دینے والے ادارے کسی ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے دیں گے۔ فوج ایک آخری ادارہ ابھی تک بچتا چلا آ رہا ہے۔ 9 مئی کا سیاہ واقعہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمنوں نے ایک کارروائی سے فوج اور عوام کے درمیان اتنی بڑی خلیج پیدا کردی۔ یہ سارا کچھ سامنے ہونے کے باوجود اگر کوئی سیاستدان محض اپنے اقتدار کے لیے اس خلیج کو بڑھانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے تو پھر عوام کا بھی حق ہے کہ اس سے اس کی سیاسی بلوغت کا ثبوت مانگے۔