دہشت گردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام

پاک سرزمین 1980 ءسے تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی زد میں ہے۔دسمبر 1979 میں سویت افواج کے افغانستان پر قبضہ کے خلاف افغانیوں کی طرف سے مزاحمت ایک ایسا یقینی عمل تھا جس میں پاکستان افغانیوں کی مدد نہ بھی کرتا تو بھی انہوں نے سویت افواج کے قبضہ کوتسلیم نہیں کرنا تھا اور وطن کی آزادی کیلئے ہر صورت ہتھیاراٹھانے تھے۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے علاقے دونوں ملکوں میں مشترکہ قبائلی آبادیوں پر مشتمل تھے۔ یوں پاکستانی قبائل کو افغانیوں کی مدد کرنے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ علاوہ ازیں سویت فوج کابل پر قبضے کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلوں تک کے علاقہ پر قبضہ کا ایجنڈا ساتھ لے کر آئی تھی۔ ان حالات میں سویت فوج کو افغانستان میں افغان مزاحمت کاروں کے ذریعے مصروف رکھنا پاکستان کی بھی دفاعی ضرورت تھی جس کے جواب میں سویت یونین، افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے جی بی، خاد اور را نے پاکستان کے طول و عرض میں ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بم کا استعمال کرتے ہوئے طویل عرصہ تک پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپا کیے تھا۔ پشاور سے لے کر کراچی تک پاکستان کا کوئی بڑا چھوٹا شہر بم دھماکوں سے محفوظ نہیں تھا۔ ان دھماکوںمیں ملوث بھارت کے بہت سے سرکاری دہشت گرد اس دوران گرفتار بھی ہوئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا یہ دور فروری 1989 میں شکست خردہ سویت فوج کی افغانستان سے رخصت تک جاری رہا۔
اس کے بعد کچھ برسوں تک پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑی حد تک کم ہوگئے مگر افغانستان میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی کی وجہ سے 60 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے پناہ کے لئے پاکستان آگئے۔ ان مہاجرین میں وہ عناصر بھی شامل تھے جو سویت قبضہ کے دوران پاکستان میں بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے سہولت کار رہے۔ افغانستان میں قیام امن کے نام پر طالبان کے نام سے امریکہ کی طرف سے وجود میں لائی گئی تنظیم نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو یہ عرصہ بھی پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات سے محفوظ رہا۔ 2001 ءمیں امریکہ کے ساتھ اختلافات اور نیویارک میں معروف ”نائن الیون،، دہشت گردی کا بدلہ لینے کیلئے امریکہ اتحادی افواج کے ساتھ جدید اسلحہ کے زور پر افغانستان پر قابض ہوا تو اس کے دو برسوں بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے دہشت گرد تنظیم کے قیام کونفاذ اسلام کے نام پر متحرک کر دیا گیا۔ جس نے ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بم ڈیوائس کی جگہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے انسانوں کو خود کش بمبار کے طور پر استعمال کا آغازکیا۔ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے زیر اثر قبائلی علاقوں کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد دہشت گردی کا سلسلہ پورے پاکستان میں پھیلا دیاگیا۔
یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لئے انتہائی مشکل دور تھا۔ پر رونق بازار، بچوں کے پارک، ہسپتال، عدالتیں، کچہریاں، فوج کی تنصیبات اور سب سے بڑھ کر تعلیمی ادارے تک خودکش بمبار دہشت گردوں کا ہدف رہے۔ اس پوری بہیمانہ منصوبہ بندی کے پیچھے اکیلا بھارت نہیں بلکہ امریکی و برطانوی خفیہ ادارے بھی کردار ادا کررہے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جب اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، لشکر جھنگوی، القاعدہ، جنداللہ اور لشکر اسلام نے پاکستان کے خلاف اتحاد کیا تو اس کی پشت پر بھی بھارت ہی تھا۔ اس دہشت گردی کیخلاف 2014 ءمیں پاک فوج اور اس وقت کی حکومت نے آپریشن ضرب عضب کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا جس میں پاک فوج کا تاریخ ساز کارنامہ قبائلی علاقوں کی پوری آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے بعد وہاںسے دہشت گردوں کا صفایا تھا۔ پاک فوج کی اس کامیابی کے بعد دہشت گرد تنظیموں کی قیادت نے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لی۔
15 اگست 2021 ءکی شب امریکی فوج کے افغانستان سے خاموش انخلاءاور کابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نے پھر زور پکڑا لیکن دہشت گردی کا یہ عمل ماضی سے زیادہ اس لیے بھی خطرناک ثابت ہواکیونکہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیوں کے لیے جدید امریکی اسلحہ سے لیس ہو کر حملہ آور ہو رہے تھے یہ اسلحہ کابل چھوڑتے وقت امریکی فوج لاکھوں کی تعداد میں کابل کے بگرام بیس پر چھوڑ گئی تھی۔ دہشت گردی کی اس لہر میں پاکستان میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ورکروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے تھا جس پر چین میں شدید اضطراب پایا جانا فطری بات تھی۔ 
اس حوالے سے پاکستان میں دہشت گردی اور اس میں چینی ورکروں کو درپیش خطرات کے پیش نظر پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے تحفظات اس لیے بھی اہم تھے کہ سی یپک پروجیکٹ دہشت گردوں کا خصوصی ہدف تھا اور ہے۔ 21 جون 2024ءکو پاکستان میں چین کے وزیر لیوجیان چاو نے کھل کر اس موضوع پر بات کی اور پاک چین سیاسی جماعتوں کے فورم میں جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں اور سب نے متفقہ طور پر پاک چین دوستی اور سی پیک منصوبے کی پاکستان کیلئے افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ پر پاک فوج اور حکومت کے لائحہ عمل پر اتفاق کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کے دوسرے روز پاکستان کی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا۔ اجلاس میں صوبے اور وفاق کی تمام اکائیوں جس میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی نے یک زبان ہوکر اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اجلاس کے دوران طے کرلیا گیا کہ ملک کے وہ تمام شورش زدہ علاقے چاہے وہ ملک کے کسی بھی صوبے میں ہوں وہاں پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
اجلاس میں سکیورٹی فورسز نے یکجا ہو کر ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بھرپور عزم کا اعادہ کیا۔ اگر ریاست نے آپریشن عزم استحکام کے تحت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا خوش آئند فیصلہ کرہی لیا ہے تو اس کے یقینی نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پوری قوم اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...