سائبان

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ اس دنیا کا سب سے بہترین معاشرہ ہے۔ اس کی اقدار ، روایات، تاریخ، تہذیب، اصول ،انسانیت ایک مہذب اور امن پذیر معاشرے کی عکاس ہے۔ بہت سے لوگ اس سے اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں مگریہ حقیقت ہے اور اس کا اندازہ ہمیں تب ہوتاہے جب ہم کسی دوسرے معاشرے کے رسم ورواج اور قدروں کو دیکھتے ہیں۔ انسان جذباتی جانور ہے وہ محبت، عزت اور خیال رکھے جانے کے دائرہ کار سے کبھی نہیں نکل پاتا ، بے پروائی اور صرف اپنی ذات کا گرویدہ ہوکر جینے والے لوگ انسانیت کا مذاق بن جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جب انسانوں کا عزت واحترام کم ہوتاہے یا ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تو عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کےلئے اولڈہومز بننے لگتے ہیں، گھروں کی برکتیں، دعائیں اور رحمتیں رخصت ہوجاتی ہیں، گھرخالی ہوجاتے ہیں،کسی بھی پیڑکابیج لگایاجاتاہے تو مالی اسے دھوپ کی شدت، کُہرے کی ٹھنڈک طوفانی بارش اورکسی بھی نقصان پہنچانے والی طاقت سے بچاتاہے اس کےلئے وہ اپنا وقت پیسہ اور پسینہ بہانے میں لگا دیتاہے لیکن سوچیں کہ اگر وہ اس شجر کی زندگی میں ایک سایہ دار اورپھلدار پیڑ بن جاتاہے مگر اس کا سایہ اورپھل اسے نصیب نہیں ہوتا تو زندگی کس طرح دردناک احساسات کا شکارہوجاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اولڈہومز بننے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ کتنی ایسی آنکھیں ہیں جو انتظار کی گھڑیاں گنتی ہی کہ کب چھٹی کا دن آئے گا اور میرا بیٹا مجھے ملنے آئے گا، یہ بہت حسرت ناک کیفیت ہے، جہاںماں باپ کو اُف کہنے کا بھی حق نہیں دیاگیا وہاں ان کے ساتھ ایسا رویہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، ہالینڈکے ادبی دورے کے دوران میں نے وہاں کے رہنے والے لوگوں کو دیکھا تو وہاں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے لوگوں کا بھی ایک جم غفیر سڑکوں پہ نظرآتاہے۔وہاںکی زندگی پاکستانی زندگی کے حساب سے ایک مشینی زندگی لگتی ہے ہرکوئی بس چلتا جارہاہے سڑکوں کے ساتھ ساتھ لکڑی کے بینچ ہوں یا مارکیٹ میں کوئی کیفے ٹیریا ہرجگہ عمررسیدہ افراد بیٹھے بس آنے جانے والوں کو دیکھتے ہیں، نجانے وہ پرسکون ہیں یا جذبات سے عاری لوگ جن کی زندگی کا مقصد صرف آنے جانے والوں کو دیکھنا اپنے پالتو جانور کتوں کی زنجیر یا ڈوری پکڑکر چہل قدمی کرنا، پہلے توکچھ محسوس ہوا کہ ان کی زندگی بہت پرسکون اوردنیا کے جھمیلوں سے مبرا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ وہاں تو سچی محبت اور جذبات کا شدید بحران نظرآیا، اٹھارہ سال کے بچوں کو کہنے والے یہاں کے بزرگ کہ جاﺅ اپنا کماﺅکھاﺅ ہماری ذمہ داری ختم آج کتنے تنہامحسوس ہورہے تھے مگر ان کو اس بات کا احساس بھی نہ تھا، پتہ چلاکہ وہاں ایک اولڈہوم بھی ہے تو حیرت ہوئی کہ جہاں کا تعلیمی ریٹ100%ہے وہاں تو شعور اور آگہی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں پھر سوچاکہ ان کی تعلیم میں قرآن پاک کا درس ہی شامل نہیں تو ان کے احساسات میں رشتے کیسے پنپ سکتے ہیں پھر اپنے مسلمان پاکستانی بزرگوں کی طرف دیکھاتو یہاں تومحبتوں کے ایسے سایہ دار شجر ہیں جہاں رشتوں کی مضبوط شاخیں خزاں رسیدہ ہوکر بھی اپنے آخری زردپتے کی بھی حفاظت کرتی ہیں، ہالینڈ میں تو لوگ جب آخری عمر میں پہنچتے ہیں تو بس اپنے کمرے کی کھڑکی میں سورج کی پہلی کرن سے لے کر آخری ڈوبتی ہوئی آخری کرن تک بیٹھتے اورگھمبیر خاموشی کے ساتھ باہر دیکھتے ہیں، جانے کیا سوچتے ہونگے مگر ہمارے معاشرے میں اگر والدین بیمارہوجائیں یاخاموشی اختیارکرلیںتوپورا گھرانہ ان کے گرد یوں جمع ہوجاتاہے جیسے شہدکی مکھیاں شہدکے گرد تو واقعی بزرگ تو اپنے آخری دم تک شہدکی طرح میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں مگرکچھ عرصے سے عجیب سا رنگ چڑھالیاہے ان قدروں نے، پاکستان کے لوگوں کےلئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اب یہاں بھی اولڈہومز بننا شروع ہوگئے ہیں، ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے گھروںمیں والدین کی قدر نہیں رہی کیا واقعی ایساہے کیا یہ بات سوچ کر انسان کے رونگٹے نہیں کھڑے ہوجاتے کیا یہ سوچ کر ایسا نہیں لگتاکہ قیامت آنے والی ہے، کیا اس سے یہ نہیں لگتاکہ خدا ہم سے ناراض ہوگیاہے ، اس سب کا جواب ایک ہی ہے کہ ہم قدرشناس نہیں رہے جس کو ہمیں اپنے دل میں جگہ اور سرکا سائبان بناناہے ان کو اپنے سے دور نہیں کررہے بلکہ خود ان کے سائے سے محروم ہورہے ہیں۔
باپ جس نے انگلی پکڑکر چلنا سکھایا اور ماں جس نے ہمیں آغوش میں چھپاکر ہرگرم سرد حالات سے بچایا انہیں ہم یوں دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبورکررہے ہیں کیا یہ گناہ کبیرہ نہیں؟ جو بھی اس گناہ کامرتکب ہوگا اپنے آپ خدا کی عدالت میں جواب دینے کےلئے تیاررہے ۔
کیا ایک ماں کبھی یہ سوچ سکتی ہے کہ چھوٹے معصوم بچے کو کسی اور گھرمیں چھوڑکر چلی جائے یا باپ اپنے اولادکو مشکلات میں دھکیل کر سکون کی زندگی جی سکتاہے توپھریہی ماں باپ ہم پر بوجھ کیوں؟
کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اس کے بعدکیا انجام ہوگا؟ ہماری اولاد ہمارے نقش قدم پر چلے گی توکیا ہوگا؟کیا ہم اپنے والدین کے بعد اسی اولڈہوم کے دروازے پر کھڑے نظرآئیں گے یہ سچ ہے کہ ایک ماں نے اولڈہوم میںمرتے وقت ایک خط چھوڑاکہ” بیٹا میرے بسترکے اوپر جوپنکھا تھا وہ خراب ہے مگر میں نے توگرمی برداشت کرلی مگر میں نے تمہیں بہت نازوں سے پالاہے تم گرمی برداشت نہ کرسکو گے اس لئے اسے ٹھیک کروالینا کیونکہ تمہیں بھی تمہارے بچے ادھر چھوڑنے آئیں گے“۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...