سیاسی عدم استحکام ”خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

ڈاکٹر فضہ خان

 قائد اعظم محمد علی جناح کی بے وقت جدائی نوزائیدہ پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوئی ۔اگرچہ ملک کو سنبھالا دینے کے لیے قدآور شخصیات موجود تھیں لیکن قائد اعظم کے پائے کا کوئی مدبر لیڈر موجود نہیں تھا ۔اسی لیے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اقتدار کے لیے محلاتی سازشیں زور پکڑنے لگیں ۔سیاسی استحکام کی طرف گامزن ملک کو پہلا دھچکاپہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کی صورت سہنا پڑا ۔یہ سیاسی عدم استحکام کی ابتدا تھی۔ اور پھر سیاسی ابتری کا یہ عالم ہو گیا کہ 1956 سے 1958 تک صرف دو سال میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہو گئے۔ اقتدار کے اسی تیز رفتار ہیر پھیر سے طاقت کے مراکز میں ہیجان پیدا ہوا اور یہیں سے سیاست دانوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کرنے کا رواج پڑا جو اب پختہ ہو کر سیاسی ضرورت کی شکل اختیار کر گیا ۔یہاں یاد کرانا ضروری ہے کہ اکتوبر 1958 کو پاکستان میں پہلا مارشل لاءسویلین صدر سکندر مرزا کے حکم پر لگایا گیا۔سیاستدان مارشل لا کے حامی کس لئے؟ اسٹیبلشمنٹ کو کیوں کندھے پیش کرتے ہیں؟ کیا فوجی حکمرانی کے پیچھے سیاسی دانوں کا ہاتھ نہیں؟ سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کے لیے فوج کو کندھے پیش نہیں کیے ؟بے نظیر اور نواز شریف کی پاور گیم کے پیچھے کون تھا ؟کیا سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کے لیے ملک کو بے توقیرنہیں کیا ؟بھارتی وزیراعظم کیوں بول پڑے کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پڑوسی ملک میں حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔کیا یہ ملک کی بےعزتی نہیں؟ سیاست دان کمزور کیوں ؟اداروں پر کنٹرول، بلا امتیاز احتساب، سسٹم اور ملک کو درست سمت کیوں نہیں دے سکے؟ ایک سیاستدان کی اقتدار سے بے دخلی پر دوسرا اپنی سروسز پیش کرنے کے لیے کیوں بے قرار؟ میثاق جمہوریت کا کیا ہوا ؟پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بااصول سیاستدانوں کا قحط اور جی حضوروں کی بہتات نظر آئے گی۔جنہوں نے ہر دور میں اپنے اقتدار کے لیے فوج کو کندھے پیش کئے۔ بے نظیر بھٹو کی چھٹی پر کوئی سیاست دان اقتدار قبول نہ کرتاتو سیاسی بحران سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا سیاست دانوں نے خدمت کے ڈبل تقاضے پورے کیے۔ اسی طرح جب بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ محاذآرائی کا ماحول بنا ۔سیاست دانوں نے جمہوریت کا ساتھ دینے کے بجائے دوسرے فریق کا انتخاب کیا ۔جہاں اصولوں کی بجائے فائدے عزیز ہو توں تو جمہوریت کا رونا کس لیے؟ سیاست دانوں کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، اپنے فائدے کے لیے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے اور اقتدار کی چھینا جھپٹی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ نتیجہ سامنے ہے ملک کمزور کھوکھلا اور اسے چلانے والے ہر لحاظ سے بہت مضبوط ہیں ۔اور ایسا کب تک چلے گا ؟ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے.سلامتی کے تقاضے معیشت کا ٹائٹینک بھی ہچکولے کھا رہا ہے اگرچہ حکومت اور آرمی چیف معاشی بحالی کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدے کچھ ہو چکے باقی ہونے والے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سرمائے کا بہاو¿ بحال اور معاشی اعشاریے بہتر ہو جائیں گے کاروبار کو بھی فروغ ملے گا۔ لیکن اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام شرط اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔سیاستدان بھی ماضی سے سیکھیں وہ بھی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑیں ۔اپنا نہیں ملک کا فائدہ سوچیں۔ ذاتی فائدے کے لیے کندھے پیش کرنا بند اور ملبہ فوج پر گرانے کی بجائے اپنا سیاسی گند خود صاف کریں ۔اور یہ کام جتنی جلدی ہو جائے ان کے لیے بہتر ہوگا تاخیر کی تو متبادل کی لمبی لائن ہے۔ پھر لمباانتظار کرنا پڑ سکتا ہے.

ای پیپر دی نیشن