محمد حمزہ عزیز
واقعہ سوات انتہا پسندی کا کوئی پہلا سانحہ نہیں بلکہ اس طرح کے خوفناک واقعات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس پر ہم آج تک قابو نہیں پا سکے ہیں۔ پاکستان کے 77 سالوں میں ایسے بے شمار کیس سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے کوئی بہانہ کر بنا کر یا الزام لگا کر کسی بے قصور کی جان لی لیکن کبھی ان خوفناک واقعات کے حقیقی اسباب پر غور نہیں کیا گیا۔ یہ بات عقل سے باہر ہے کہ کوئی بندہ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منانے سوات آیا تو وہ وہاں آکر قرآن پاک کی بے حرمتی کیوں کرئے گا۔ ایک بار وہی لرزہ خیز منظر دیکھنے کو ملا کہ جلانے والے بھی کلمہ پڑھ رہے تھے اور جلنے والا بھی۔ اس ملک میں توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کے نام پر کئی دل خراش واقعات پیش آئے ہیں جہاں بہت سے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی ہجوم کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ 2018 میں مردان کی یونیورسٹی کے طالب علم کو آن لائن گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں ساتھی طلبہ نے ہی جان سے مار ڈالا۔ 2021ء میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سری لنکن مینیجر کو توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے قتل کرنے کے بعد لاش جلا دی۔ 2022 میں ضلع خانیوال کے ایک دماغی طور پر بیمار شخص مشتاق احمد کو مبینہ طور پر قرا?ن کے اوراق جلانے کے جرم میں ہجوم نے اذیت ناک موت دی۔ ایسے واقعات کے بعد صرف دو تین دن سوگ کی فضا رہتی ہے اعلی حکام کی طرف سے ایک بیان آتا ہے جس میں وہ ہمدردی اور تعزیت کرتے ہیں، حکومتی عہدیداران کی جانب سے ایسے واقعات کو رد کرتے ہوئے ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں لانے کے بیانات آتے ہیں، کچھ واقعات میں اگر مجرم گرفتار بھی ہوئے تو قرار واقعی سزائیں نہ پاسکے۔ اسی طرح سے وقت گزرتا جاتا ہے اور اگلے کسی واقعے کے رونما ہونے تک مکمل خاموشی چھا جاتی ہے اور پھر سب پہلے کی طرح چلنا شروع ہو جاتا ہے۔
حالیہ سوات والے واقعے میں بھی وہی ہوا کہ لوگوں نے ایکس پر ٹرینڈ چلا دیے، انسٹاگرام اور فیس بک پر سٹوری لگا دی، یوں اپنی جانب سے کچھ نہ کچھ حصہ ڈال کر ایسے واقعات کی مذمت کردی -پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان قبائلی علاقوں یا چھوٹے قصبوں کے علاوہ اب ملک کے بڑے شہر وں میں بھی پھیل چکا ہے اور مذہبی جنونیت اب تو پاکستان، جسے ہم بڑے فخر سے ”عالم اسلام کا قلعہ“ کہتے ہیں، اس کے شہریوں کی رگوں میں بس گئی ہے۔ کریمنلوجی میں ایسے لوگوں کو “ہارڈند کریمنل، Criminal Hardened کہا جاتا ہے یعنی عادی مجرم، جنہیں جیل میں رکھ بھی لیں، سزا کاٹنے کے بعد، یہ پھر معاشرے میں جا کر جرم ہی کریں گے۔ ہم لوگ یہ بن چکے ہیں۔ زندگی گزارنے کا بہترین اصول یہی ہے کہ انسان دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلے لیکن کیا ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے ؟ اگر معاشرہ نارمل ہو اور کوئی سائنسی سوچ پروان چڑھے تو قوت برداشت، صبر و تحمل اور مثبت سوچ کی حامل لوگ جنم لیں گے۔ بچوں کے ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں اس پر جو لکھا جائے گا وہ تحریر پوری زندگی ان کے ساتھ رہے گی۔ بچوں کے مطالعے کے ساتھ ان کی سوشل میڈیا پر مصروفیات پر بھی کڑی نظر رکھیں - پب جی یا اس طرح کی گیمز جن میں خون خرابہ زیادہ ہوتا ہے ویسے بھی 12 سال سے چھوٹے بچوں کو نہیں کھیلنے دینی چاہیے، اگر آپ لوگوں کو یاد ہو تو پب جی کی وجہ سے بھی قتل کے بہت کیسس سامنے آئے تھے، یہ چیزیں بچوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرتی ہے۔ عدالتی نظام کی بات کی جائے تو ایسے واقعات میں سب سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہوتی ہے اورجب پولیس ملزموں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کرے تو پھر ججز پر دینی تنظمیوں اور گرپورں کا پریشر ہوتا ہے- یہ بھی ماننا ہوگا کہ گزشتہ 77 سال میں ریاستی اداروں نے مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کی حمایت کی اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہمارے معاشرے کو مذہبی جنونیت کا شکار کرنے کے زمے دار دینی مدارس ہیں مگر اب تو مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباَ سبھی افراد اس میں کسی نہ کسی طور کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ ابھی کسی پارک میں یا ایسی جگہ جہاں لوگ بیٹھے ہوں، کسی مذہبی قصے کی بات چھیڑ دیں، چند ہی سکینڈ میں آپ کو دوسروں کے ردعمل سے انتہا پسندی ظاہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ ایک کھلا ذہن رکھنے والا فرد ہمارے معاشرے میں آج ایسی گھٹن اور اذیت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم جتنا مرضی کہہ لیں کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے لیکن ہماری حرکات بالکل اس کے الٹ ہیں۔ میں کسی تنظیم کا نام نہیں لوں گا لیکن کیا جو مدین میں ہوا وہ کوئی انصاف تھا ؟۔ کوئی غیر ملکی جب بھی اس خبر کو دیکھے گا تو پاکستان کی بدنامی تو ہوگی ہی ہوگی، دین اسلام پر بھی سوال اٹھے گا۔ یہ جو بالی وڈ یا ہالی وڈ کی فلموں میں مسلمان دکھایا جاتا ہے، انتہا پسند، غصے والا، ظلم کرنے والا، دہشت گرد، کیا ہم اس سے بہتر ہیں ؟۔ سوات جیسے واقعات کے بعد ہم ہر گز خود کو ان الزامات سے نہیں بچا سکتے سکتے، اور اسلاموفوبیا پھیلنے سے بھی نہیں روک سکتے۔ یہاں نہ کسی کو پولیس کا خوف ہے نہ مقدمہ درج ہونے کا ڈر سب جو جی میں آتا کرتے ہیں۔کیونکہ اب مجرموں کو یقین ہوچکا ہے اگر کوئی کسی پر توہین رسالت یا توہین قرآن کا الزام لگائے گا تو وہ اپنی دشمنی بھی نکال لے گا اور بچ بھی جائے گا۔ اس قسم کے وحشیانہ واقعات پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے تو پولیس کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔جتھوں کو کس نے حق دیا ہے کہ خود فیصلہ کر کے کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے- سزا دینے کے لیے ہی ریاستی ادارے بنے ہیں۔ توہین مذہب جیسے ہر کیس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور پھر فیصلہ آنا چاہیے۔ صرف ایک دفعہ تعداد کی پرواہ کیے بغیر ایسے نفرت انگیز جرائم میں ملوث افراد کو پھانسی دے دی جائے۔ ایک بار یہ مثال قائم ہوگئی تو باقی سب کے لیے عبرت کا مقام ہوگا۔ اس مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ پاکستان اور اس سے کہیں زیادہ دین کا تقدس بچانے کے لیے ضروری ہے۔
سوات واقعہ کے اسباب
Jun 28, 2024