ماضی کے جھرنکوں سے 

پس آئینہ 
خالدہ نازش 
جوں ہی میری نظر ان پر پڑی میرے منہ سے بے ساختہ آواز نکلی فاروق صاحب! انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کسی اجنبی کی طرح مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگے - میرے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کیونکہ برسوں بعد کسی کو دیکھ کر فوراً پہچان لینا فاروق صاحب جیسے انسان کے لئے جو اب بڑھاپے کا سفر طے کر رہے تھے بہت مشکل تھا - وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے خدوخال ، آواز جسمانی ساخت بھی بدل جاتی ہے اور کسی کے لیے بھی برسوں پہلے دیکھے ہوئے انسان کو آسانی سے پہچان لینا مشکل ہو جاتا ہے - مجھے اپنا تعارف کرانے کے لئے فاروق صاحب کو برسوں پیچھے لے جانا پڑا، اور ایک خاص واقعہ سنانا پڑا جس سے مجھے لگتا تھا کہ وہ بہت جلد پہچان لیں گے - میں نے جس سرکاری سکول سے میٹرک کیا تھا فاروق صاحب اس سکول میں چپڑاسی تھے ، ہم سکول کی سب لڑکیاں انہیں فاروق بھائی کہتی تھیں - فاروق بھائی چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لیے روزانہ سکول گیٹ پر کھڑے نظر آتے تھے ، اس وقت کے ایک نوجوان فاروق بھائی کو جو اب بڑھاپے میں پہنچ چکے تھے کو پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی - میرا سکول بہت دور تھا اور آج کے بچوں کی طرح سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں - گرمی سردی میں روزانہ پیدل سکول جانا ہوتا تھا ، پھر بھی کسی طرح کا ملال نہیں ہوتا تھا - چونکہ میٹرک کے طالب علم نئے نئے جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں اور جوانی زندگی کا سب سے حسین دور ہوتا ہے ، آنکھوں میں بہت سے خواب ہوتے ہیں یوں تو طالب علمی کا سارا دور ہی ناقابلِ فراموش ہوتا ہے کیونکہ ابھی عملی زندگی میں قدم نہیں رکھا ہوتا اور زندگی کے پیچ و خم سے واقفیت نہیں ہوتی ، ہر چیز حسین دکھائی دے رہی ہوتی ہے لیکن سکول کا زمانہ زیادہ حسین ہوتا ہے ، چنانچہ سہولتوں کے نہ ہونے کا احساس ہی نہیں تھا ، اور اہم بات اس وقت سہولتیں کسی کو بھی میسر نہیں تھیں - میں اور میری بہن اپنے کتے سے بہت چھپ کر گھر سے سکول کے لئے نکلتی تھیں ، کیونکہ ہم جہاں کہیں بھی جاتے تھے وہ ہمارے ساتھ چلا جاتا تھا - ایک دن چھپ کر نکلنے کے باوجود اس کو خبر ہو گئی ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ گھر واپس چلا جائے مگر کوشش بے فائدہ رہی - کتے نے اس دن ہمارا سکول جانا عذاب بنا دیا تھا ، راستے میں اس کی بہت سے کتوں سے لڑائی بھی ہوئی جو کتا ملتا اس سے لڑائی کرتا - گویا سکول کا پورا راستہ محاذ جنگ بنا رہا ، بہت دفعہ ہم نے سوچا کہ ہمیں چھٹی کر لینی چاہیے اور گھر واپس چلے جانا چاہیے مگر کلاس کے ٹیسٹ چل رہے تھے جس کی وجہ سے چھٹی نہیں کر سکتی تھی - سکول پہنچ کر کتا تھوڑے فاصلے پر تھا کہ ہم نے سکول میں داخل ہو کر فوراً سکول گیٹ بند کر دیا مگر گیٹ کے نیچے کافی گیپ تھا اور کتا نیچے سے سکول میں داخل ہو گیا ، ہم تو کمرے میں جا کر چھپ گئیں اور ہمیں ڈھونڈتے ہوئے اس نے سکول کی لڑکیوں کی وہ چیحیں نکلوائی کہ اس دن پورے سکول میں ایک کہرام کا سماں تھا - فاروق بھائی نے اسے مار مار کر سکول سے باہر نکالا تھا - ہماری بچت اس لئے ہو گئی تھی کہ لڑکیوں کو پتا نہیں تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گیا تھا وگرنہ ہماری بھی خوب شامت آنی تھی - اس دن سکول کا سارا وقت ہم نے بہت پریشانی میں گزارا تھا ، ہمیں اس کی بہت فکر ہو رہی تھی ، مگر جب ہم گھر واپس آئیں تو وہ یہ سارا کارنامہ سر انجام دے کر گھر میں آرام فرما رہا تھا - میں نے فاروق بھائی کو جب کتے کا واقعہ یاد دلایا تو انہوں نے مجھے فوراً پہچان لیا - سرکاری سکول کے چپڑاسی کی نوکری بھی چونکہ سرکاری ہوتی ہے نوکری کی مدت پوری کرنے کے بعد فاروق بھائی ریٹائر ہو چکے تھے اور اب وہ عمر کے اس حصے میں تھے جس میں ان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر فارغ ہو چکے ہوتے ہیں ، اور اگر نہ بھی پڑھیں تب بھی روزگار کے قابل ہو جاتے ہیں - میں نے ان سے بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکتا - بیٹے انٹرمیڈیٹ تک پڑھے ہیں اور بیٹیوں نے میٹرک کیا ہے ، انہوں نے بتایا کہ ایک بیٹے کو اسی سکول میں کلرک کی نوکری مل گئی ہے - یہ سب بتاتے ہوئے فاروق بھائی کے چہرے پر اطمینان وسکون تھا اور یہ اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے بہت کچھ کر دیا ہے - مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ غریب اتنے پر بھی راضی ہوتا ہے جبکہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ زندگی کی ہر آسائش کے باوجود اطمینان وسکون کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں - خواندہ کی تعریف خواہ کچھ بھی ہو میرے نذدیک خواندہ کہلانے کے لئے کم از کم میٹرک ہونا ضروری ہے اس لیے ان کے بچوں کے بارے میں مجھے سن کر اچھا لگا کہ کم از کم ان کا شمار ناخواندہ لوگوں میں نہیں ہوتا - گاو¿ں میں فاروق بھائی کی عمر کے بہت سے لوگوں کے بچے میٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی یا تو سکول سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر والدین کی عدم توجہ کی بنا پر اپنی مرضی سے سکول چھوڑ جاتے ہیں اور یہ انہیں بچوں میں سے ہوتے ہیں جن سے اگر پوچھا جائے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے ، تو کوئی ڈاکٹر ، کوئی انجینئر ، کوئی فوجی یا پولیس آفیسر اور کوئی ٹیچر بننے کی خواہش ظاہر کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ان میں سے کوئی آدھ فیصد ہی کسی شعبے میں جا پاتے ہیں اور باقی ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد محنت مزدوری کی طرف چلے جاتے ہیں - کوئی بھی بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو یہ اس کا نصیب ہوتا ہے کہ وہ کس گھرانے میں پیدا ہوا ہے ، عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بیوروکریٹس کے بچے بیوروکریٹس ، فوجی جرنیل کے فوجی جرنیل ، جج کے جج ، ڈاکٹر کے ڈاکٹر ، ٹیچر کے ٹیچر اور چپڑاسی کے بچے چپڑاسی یا زیادہ سے زیادہ کسی سکول کے کلرک یا ماسٹر بن جاتے ہیں - ایک بچہ جو بچپن سے ہی اپنے بیوروکریٹ باپ کو دیکھتے دیکھتے بڑا ہو رہا ہوتا ہے اس کے سامنے ایک رول ماڈل ہوتا ہے اور گائیڈ لائن ہوتی ہے جو گھر سے ہی مل جاتی ہے وسائل کی بھی کمی نہیں ہوتی اس لیے اسے شروع سے ہی ایسے حالات میسر آتے ہیں کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیوروکریٹ یا کسی اور بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے یہی خوش نصیبی باقی تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز والدین کے بچوں کی بھی ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ صرف انہیں لوگوں کے بچے ذہین ہوتے ہیں یا میرٹ پر پورا اترتے ہیں - اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ان لوگوں کے بچے کافی بگڑے ہوئے بھی ہوتے ہیں ، کالجز یا یونیورسٹیز میں ان کی سرگرمیاں بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی ، والدین کے عہدوں کا ناجائز فائدہ بھی اٹھا رہے ہوتے ہیں پھر بھی یہ اعلیٰ عہدوں پر چلے جاتے ہیں - اس کے برعکس غریب کے بچوں کو یہ ساری سہولتیں میسر نہیں آتی ان کے سامنے گھر میں کوئی رول ماڈل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی گائیڈ لائن ہوتی ہے اور سب سے بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے ان سب مشکلات کے باوجود اگر کسی غریب کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر بھی لے تو اسے اچھی نوکری نہیں مل سکتی کیونکہ یہاں میرٹ نہیں بلکہ جتنی بڑی نوکری اتنی بڑی رشوت یا سفارش کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لئے وہ مایوس ہو کر سوچتے ہیں کہ اگر اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی محنت مزدوری کرنی ہے تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت ہے - ملک میں اس تاثر کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ سب کو تعلیم کے یکساں مواقع حاصل ہوں- فاروق بھائی سے ملاقات نےاتنے سالوں بعد ماضی کے جھرنکوں سے جھانکنے کا موقع دیا جو بہت اچھا لگا -

ای پیپر دی نیشن