سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
جب قومی اسمبلی کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا تو اس وقت اس بلڈنگ میں قائد اعظم کا پو ٹریٹ موجود نہیں تھا ۔میں اس وقت قومی اسمبلی کا قائمقام سپیکر تھا لیکن اس حوالے سے ایک دو روز میں فیصلہ نہیں کرسکا ۔ بعد ازاں حامد ناصر چٹھہ سپیکر بنے ،وہ نہایت ہی کھلے دل کے اور Acomadatingسیاست دان تھے ،اور نہایت ہی باصلاحیت شخصیت بھی تھے ،میرے اور ان کے درمیان قائد اعظم کی پوٹریٹ کے حوالے سے اختلاف رائے موجود تھا ۔کہا جاسکتا ہے کچھ فکری اختلاف بھی تھا ۔حامد ناصر صاحب قائد اعظم کی شیروانی میں فوٹو چاہتے تھے جبکہ میں اس پوٹریٹ کی وکالت کررہا تھا جو قائد اعظم کے پسند یدہ لباس میں تھی ۔یہ معاملہ چل رہا تھا کہ ایک دن حامد ناصر کے صاحبزادے جو کہ ایچسین کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اسمبلی میں تشریف لائے میرا سپیکر صاحب نے ان سے تعارف کروایا وہ ایک نہایت ہی خوبرو نوجوان تھے ،انھوں اس اختلاف رائے کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے تجویز دی کہ قائد اعظم کا ایسا پو ٹریٹ لگوایا جائے جس میں کہ قائد اعظم ؒکی داڑھی ہو ،اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ اگر میری صاحب زادی سے مشورہ لیا جائے تو ان کی رائے یہ ہو گی کہ قائد اعظم کی ایسی تصویر لگوائی جائے جس میں کہ قائد اعظم پان چبا رہے ہوں ۔اس کے بعد میں نے قائد اعظم کا یہ پو ٹریٹ بنوایا جو کہ قائد اعظم کا موجودہ پوٹریٹ ہے ،اور یہ پو ٹریٹ میں نے طلعت صاحب سے بنوایا تھا جو کہ نہایت ہی ماہر فنکار تھے اور بہترین صلا حیتوں کے حامل تھے ،اور بعد میں بیرون ملک مقیم ہو گئے ،کہنا کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہم ساروں نے مل کر اپنی ہی قیادت کی کردار کشی کی ہے اور اپنی قیادت کو خراب کرکے اپنے ساتھ اور ملک کے ساتھ بھی دشمنی کی ہے اور اس کا نقصان ہمیں بطور قوم اٹھانا پڑا ہے اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کے ممالک سے تو دور کی بات اپنے خطے کے ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں ۔ہم نے 47ءسے لے کر آج تک کسی بھی سیاست دان یا لیڈر کا امیج ٹھیک نہیں رہنے دیا ہے اور عوام کی دی ہو ئی مقبولیت کو قبول نہیں کیا ہے اور یہ سوچ ہمارے انحطاط کی وجہ بنی ہے ۔ہمیں ملک کو آگے لے جانے کے لیے ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت ہمارے سیاسی میدان میں معدوم دیکھائی دیتی ہے جمہوریت کمزور ہے اور مسائل کا شکار ہے جبکہ عوام کو بحران در بحران کا شکار کر دیا گیا ہے ۔ہم ایک ویلفئر ریاست کی بجائے ایک سیکورٹی ریاست بن کر رہ گئے ہیں جو کہ ہمارے مسائل کی بڑی وجہ بھی ہے ۔ہمین واپس فلا حی ریاست کی جانب واپس آنے کی ضرورت ہے جس کی کہ سیکورٹی بھی مضبوط ہو ۔لیکن ریاست کا بنیادی مقصد مضبوط معیشت اور عوام کی خوشحالی ہو ۔اس کردار کشی کے ما ئنڈ سیٹ سے باہر نکلنا ہو گا ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا ہو گا ۔جمہوریت کو کبھی بھی صیح معنوں میں با اختیار اور طاقت ور نہیں بنایا گیا ہے اور مقامی حکومتوں کا نظام نہیں لایا گیا ہے جس سے عوام باختیار نہیں ہو سکے ہیں اور جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی ،جب تک عوام با اختیار نہ ہوں اور مقامی سطح پر ان کے مسائل حل نہ ہو ں تب تک جمہوریت بھی جمہوریت نہیں بنتی ہے جب مقامی سطح پر ہی مسائل حل ہوں گے تو ہی دارلحکومت میں بیٹھنے والے لوگوں کو بڑے مسائل حل کرنے کا موقع ملے گا ،لیکن ہم نے ہر حال میں جمہوریت کو بدنام کرنے کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے ۔ملک میں غیر جمہوری سوچ نے بہت نقصان پہنچایا ہے ایک ڈکٹیٹر نے یہ فیصلہ کر لیا ترقیاتی فنڈز ایم این ایز کو دیے جانے ہیں اور اس فیصلے سے نہ صرف عوامی منتخب نمائندوں کی تذلیل ہو ئی بلکہ پاکستان کا نظام جمہوریت بھی تتر بتر ہو گیا ۔بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ ہم نے ملک میں کسی کو بھی بے داغ نہیں چھوڑا ہے اور ہر کو ئی داغ دار ہے ،بلکہ کہنا چاہیے کہ ہم سے ہر ایک ہی اس چیز کا ذمہ دار ہے کہ ہم نے کسی کو بے داغ رہنے نہیں دیا ہے یہ ہمارا قصور ہے اور جس طرح سے ہم نے قیادت کو اور سیاست دانوں کو داغ دار کیا ہے ، اسی طرح سے ہماری ہی سیاسی جماعتوں سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کو بھی داغ دار کیا گیا ہے ،یہ تاثر پھیلا گیا کہ یہ نظام کو ڈکٹیٹروں کا من پسند نظام ہے اور ہمیشہ دور آمریت میں ہی یہ نظام پروان چڑھا ہے ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ مقامی حکومتوں کا نظام ہی ہو تا ہے جس پر کہ جمہوریت کی عمارت کھڑی ہو تی ہے ۔اگر یہ نظام موجود ہو تا اور کام کررہا ہو تا تو وزیر اعلیٰ کو آلا ئیشیں اٹھانے کا کام نہ کروانا پڑتا اور نہ ہی اس حوالے سے مسائل ہو تے اور صوبائی حکومتیں بھی بڑے مسائل پر زیادہ توجہ دے سکتیں ۔لیکن چونکہ یہ نظام موجود نہیں ہے اس لیے وزیر اعلیٰ ہی آلا ئشیں اٹھوانے کا کام کررہی ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بھی بری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری ہر عالمی درجہ بندی میں پوزیشن 140 ویں یا اس سے اوپر ہے ۔جب سے ہمارا ملک وجود میں آیا ہے ہمارے بعد میں وجود میں آنے والے ممالک ہمارے سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور ان ممالک کا شمار صف اول کے ملکوں میں ہو تا ہے ۔اور ہم ہر طرح سے آخری نمبروں پر موجود ہیں اور اس صورتحال کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم کردار کشی کے سرخیل ہیں ۔قائد اعظم صرف اور صرف ایک جمہوریت پسند تھے اور کچھ نہیں تھے اور ان کا آئین جمہوریت تھی جس کی بنیاد مقامی حکومتوں کا نظام ہے ۔