اسلام میں حالت جنگ کی اخلاقیات

Jun 28, 2024

ڈاکٹر محمد نوید ازہر
اسلام میں جنگ کا تصور، دیگر اقوام کے تصور جنگ سے مختلف ہے۔ اسلام میں جہاد کا لفظ، عربی لفظ’’حرب‘‘ کا مترادف نہیں، جس کا مطلب محض’’جنگ‘‘ ہے اوراس سے تباہی و بربادی مراد لی جاتی ہے۔ غور طلب بات ہے کہ جس مذہب کے نام ہی میں سلامتی اور امن و امان کا مفہوم پوشیدہ ہو، وہ بے جا کشت و خون کی صورت میں فساد فی الارض کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ اسلام میں جنگ کا مقصد ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرتے ہوئے، عدل و انصاف اور امن و امان کو قائم کرنا ہے۔
 اسلام کے تصور جنگ کی وضاحت اس آیت قرآنی سے ہوتی ہے:’’وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا، تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے‘‘۔(الحج۲۲:۴۰)
اس آیت میں دراصل جنگی اخلاقیات بیان کی گئی ہے کہ اگر اسلامی جہاد کے ذریعے سے جنگ کے اصول و ضوابط اور حدود مقرر نہ کیے جاتے، تو پھر آج غیر مسلموں کے عبادت خانے بھی صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہوتے۔(مدارک)امن کے قیام کے لیے، رسول اللہؐ کو کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ یہ کامیابی محض جنگی اخلاقیات کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔ آپ نے جو اصول مقرر فرمائے، اپنے سپاہ سالاروں اور مجاہدین کو سختی کے ساتھ ان پر پابندی کا حکم دیا۔ آپ نے جنگ کے دوران میں، بے قصور افراد خصوصاً بچوں، عورتوں، بوڑھوں، معذوروں اور خلوت نشیں عابدوں اور زاہدوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے سے منع کیا۔ سر سبز و شاداب کھیتوں، پھل دار درختوں اور باغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا۔ آپؐ مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے: کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے یا عورت کو قتل نہ کرنا، اموال غنیمت میں چوری نہ کرنا، جو کچھ ملے اسے ایک جگہ جمع کرنا، نیکی اور احسان کرنا، کیونکہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(ابو دائود، الجہاد) آپ نے شب خون مارنے یا دشمن کو غافل پا کر حملہ کرنے سے منع کیا۔(بخاری) دشمن کو آگ میں جلانے سے منع کیا۔(ابو دائود) باندھ کر مارنے سے منع کیا۔(بخاری)لاش کی بے حرمتی کرنے یا اعضا کاٹنے سے منع کیا۔(بخاری) معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے منع کیا۔ اس اخلاقیات کی تفصیل کتب احادیث و سیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
دور رسالت کے غزوات و سرایا کی مجموعی تعداد82 ہے۔ ان کی مقتولین کی مجموعی تعداد1018(ایک ہزار اٹھارہ) ہے اور 82 پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ12.414 مقتول بنتے ہیں۔ قیدیوں کی مجموعی تعداد6564 ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کی تعداد کے اندر بڑی تعداد6000 ایک ہی غزوہ حنین کی ہے(جو کہ بعد میں تمام آزاد کر دیئے گئے) اس لیے باقی جنگوں میں اسیران جنگ کا اوسط7 رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں، دو عظیم جنگوں اور ان کی ہلاکت خیزیوں کا اندازہ لگایئے جو صرف چھوٹے چھوٹے ملکوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں۔ ان کے مقتولین اور زخمیوں کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے زیادہ ہے۔ اہل دنیا کی لڑائیاں ایک طرف،’’مہا بھارت‘‘ کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں۔

مزیدخبریں