پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!!!!

ابوذر غفاری ؓ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمدؐ ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ ؐ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) کو موجود پایا۔ اور ابوذر ؓ نے کہاہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم ؐ نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریمؐ کے ساتھ ادریس (علیہ السلام) پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس (علیہ السلام) ہیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر میں عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا، انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ پھر میں ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحب الانصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل (علیہ السلام) لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر ؓ سے نقل کیا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کردیا، پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کردیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کرسکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے آیت کریمہ کی تلاوت کی اور فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا سب سے افضل عمل اللہ کے واسطے محبت کرنا اور اللہ ہی کے واسطے دشمنی رکھنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا: قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے۔
مقدام بن معد ی کرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا: سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت) ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے : اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پائو اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پائو، اسی کو حرام سمجھو، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہوجائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پائوں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے۔ 
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کلمات چار ہیں (ترجمہ) اور تجھے اس میں سے کسی بھی کلمہ کو شروع کرنا نقصان نہ دے گا اور تم اپنے بچے کا نام یسار، رباح، تجیح اور افلح نہ رکھنا کیونکہ تم کہو گے فلاں یعنی افلح اور وہ نہ ہوگا تو کہنے والا کہے گا افلح (کامیاب) نہیں ہے اور یاد رکھو یہ الفاظ چار ہی ہیں انہیں زیادہ کے ساتھ میری طرف منسوب نہ کرنا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے عاصیہ کا نام تبدیل کر دیا اور فرمایا تو جمیلہ ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ عمر ؓ کی ایک بیٹی کو عاصیہ کہا جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جویریہ کا نام برہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اس کا نام بدل کر جویریہ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ناپسند کرتے تھے کہ یہ کہا جائے وہ برہ یعنی نیکی سے نکل گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ زینب کا نام برہ تھا تو اسے کہا گیا کہ وہ ازخود پاکیزہ بنتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اس کا نام زینب رکھ دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے برا نام یہ ہے کہ کسی آدمی کا نام شہنشاہ رکھا جائے۔ 
حضرت سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان سے خطبہ دیتے ہوئے سنا انہوں نے فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر فرمایا کہ لوگوں نے جو دنیا حاصل کرلی ہے اس کا ذکر کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سارا دن بھوک کی وجہ سے بے قرار رہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم خراب کھجور تک نہ پاتے تھے کہ جس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ کیا ہم مہاجرین فقراء میں سے نہیں ہیں تو حضرت عبداللہ نے اس آدمی سے فرمایا کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس تو رہتا ہے وہ کہنے لگا ہاں حضرت عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو غنی لوگوں میں سے ہے اس آدمی نے کہا میرے پاس ایک خادم بھی ہے عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ ابوعبدالرحمن فرماتے ہیں کہ تین آدمی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کے پاس آئے اور میں ان کے پاس موجود تھا وہ آدمی کہنے لگا اے ابومحمد اللہ کی قسم ہمارے پاس کچھ نہیں ہے نہ خرچ ہے نہ سواری نہ مال ومتاع حضرت عبداللہ نے ان تینوں آدمیوں سے فرمایا تم کیا چاہتے ہو اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہماری طرف لوٹ آئو تو ہم تمہیں وہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر تم چاہو تو تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فرماتے ہیں ہم مہاجرین فقراء قیامت کے دن مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے وہ آدمی کہنے لگا ہم لوگ صبر کریں گے اور ہم کچھ نہیں مانگتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس موجود کتاب میں لکھ دیا میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہو گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اللہ کی قسم اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی اپنی گمشدہ سواری کو جنگل میں پالینے سے خوش ہوتا ہے اور جو ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو میرے طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...