آپریشن کیوں، ریاستوں کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے: فضل الرحمن

پشاور (نوائے وقت رپورٹ) سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پھر آپریشن کا کہا جارہا ہے، ریاستوں کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے۔ امن وامان کے حوالے سے صورتحال بہت گھمبیر ہے، مسلح لوگ کئی علاقوں میں پھیل چکے ہیں، مغرب کے بعد ہمارے جنوبی اضلاع میں پولیس تھانوں میں محصور ہوکر رہ جاتی ہے، سوات سے لیکر وزیرستان تک لوگوں نے بہت قربانیاں دیں، جنگ کے دوران قبائلی لوگوں کو بھیک مانگنے پرمجبور کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تباہ حال فاٹا میں لوگوں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں، فاٹا کے عوام کا معاشی، عزت نفس کا بھی قتل کیا گیا، ایک بار پھر اعلان ہوتا ہے کہ پھر آپریشن کریں گے، ایک دفعہ آہنی باڑ لگائی گئی کہ کوئی افغانستان نہ جاسکے، ہر فیصلہ اشتعال کی بنیاد پر کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کبھی ریاستوں کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے، ریاست کے معاملات دھمکیوں سے طے نہیں ہوتے، ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے لوگ جب دہشت گردی واقعات کا پوچھتے ہیں توکہتے ہیں افغانستان سے آرہے ہیں۔ افغانستان سے ایک کمٹمنٹ لے کر آیا تھا اور مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دینے پر اتفاق ہوا تھا، آج فاٹا کے جرگہ نے ساری صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، ہمیں اس بارے میں میکنزم بنانا ہوگا، افغانستان کا استحکام پاکستان کیلئے فائدہ مند ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام کی امیدوں کو خاکسترکیا جارہا ہے، ہم تو پورے پاکستان کو امارات اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں، مشرف اور اس کا تسلسل یہ ہے ہمارے حکمران، اب حکومت اور اپوزیشن سائیڈ بھی ہائبرڈ ہے، فیصلے کون کرتا ہے؟۔ عزم استحکام کے اعلان نے کنفوژن پیدا کردی ہے، عزم استحکام کی بسم اللہ ہی عدم استحکام سے ہوگئی، ہم ملک کو مشکلوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ عزم استحکام کے حوالے سے جو پارلیمنٹ انہوں نے بنائی اس کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، آپریشن کی ماضی کی روایات تو ناکامی کے سوا کچھ نہیں، اسد قیصر جب رابطہ کریں گے تو پھر بات کروں گا، جن کیلئے سب کچھ کیا گیا وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے، شاید ضرورت سے زیادہ ہوگیا۔ ایران سے دوستی ہوسکتی ہے تو افغانستان سے کیوں نہیں، جس کو آپ حکومت کہتے ہیں میں اس کو حکومت نہیں کہتا۔ مولانا فضل الرحمان نے آخر میں قبل ازوقت الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو دوبارہ الیکشن چاہتا ہوں جس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن