پاکستانی صحافت کا ستون ”مجید نظامی“

پروفیسر راشدہ قریشی ۔۔۔
23 مارچ کو نوائے وقت کی 70 ویں سالگرہ تھی۔ 23 مارچ ہر دو لحاظ سے اہم ہے۔ اوّل تو یہ کہ 23 مارچ قراردادِ پاکستان کے حوالے سے وطن عزیز کیلئے ایک تاریخ ساز دن کی حیثیت اختیار کرگیا۔ دوم 23 مارچ ہی کو ملک کے ایسے مایہ ناز اخبار کا اجراءہوا جو پاکستان کی صحافتی دنیا میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرگیا۔ جی ہاں ایک ایسے پاکستان کے معتبر و مستند روزنامہ نوائے وقت کا اجراءہوا جس کا پودا حمید نظامی مرحوم نے لگایا جسے بعدازاں مجید نظامی نے اپنی شب و روز کی محنت‘ خلوص اور ایمانداری سے ایک تن آور و ثمر بار شجر بنا دیا۔ جس طرح حمید نظامیؒ اپنی ساری زندگی حق کی خاطر جہاد کرتے رہے‘ بالکل اسی طرح مجید نظامی تمام زندی باطل کے سامنے حق گوئی کرتے ہوئے ڈٹے رہے۔ گورنر مودودی‘ لیاقت علی خاں‘ خواجہ شہاب الدین اور ممتاز دولتانہ کے غیرجمہوری اور وطن دشمن اقدامات نے مرحوم حمید نظامی کے جذبے کو مزید ابھارا اور ان کی شخصیت کی تمام خوبیاں کھل کر اسی دور میں سامنے آگئی تھیں اور لوگوں کو علم ہوگیا تھا کہ حمید نظامیؒ کی تمام زندگی جہاد کا عملی نمونہ ہے۔ ”حق کی خاطر باطل سے ٹکرانا“ یہ ہے تمام تر نوائے وقت کا ورثہ‘ نوائے وقت کا مشن اور نوائے وقت کی پالیسی۔ حمید نظامی مرحوم کے عظیم بھائی مجید نظامی نے نوائے وقت کے اسی ورثے‘ اسی مشن اور اسی پالیسی کو زندہ رکھنے کیلئے اپنی متاع حیات وقف کررکھی ہے۔ آج جبکہ صحافت کمرشل رنگ اختیار کرچکی ہے‘ صحافت کا کوئی قبلہ و کعبہ درست نظر نہیں آرہا۔ مقصدیت‘ بے باکی و حق گوئی معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مختلف النوع ترغیبات نے صحافیوں کو چکاچوند کرکے انہیں اپنے مرکز سے ہٹا دیا ہے تو ان حالات میں جناب مجید نظامی کی سرپرستی میں نوائے وقت ہی ایک ایسا روشن مینار نظر آرہا ہے جو بہرحال پیشانی پر لکھے گئے حدیث مبارکہ کے سنہری حروف ”جابر حکمران کے آگے کلمہ حق کہنا“ کی عملی تصویر بن چکا ہے۔ آج بھی مجید نظامی صاحب کی نظریاتی صحافت کے شہ پارے نوائے وقت‘ فیملی میگزین‘ دی نیشن اور وقت نیوز چینل حکومت وقت کیلئے آزمائش و کٹہرے کا درجہ رکھتے ہیں۔ آج بھی کئی عناصر جناب مجید نظامی کی نظریاتی صحافت کے سامنے دم بخود نظر آتے ہیں۔ آج بھی مجید نظامی کی نظریاتی صحافت مسلم امہ کے تشخص کو اجاگر کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ آج بھی مجید نظامی کی نظریاتی صحافت کو بحالی جمہوریت و استحکام جمہوریت کی آواز سمجھا جا رہا ہے۔ آج بھی مجید نظامی کی نظریاتی صحافت کو ملی اقدار کا پاسبان تصور کیا جا رہا ہے۔ آج بھی مجید نظامی کی نظریاتی صحافت وطن عزیز کی قومی و اسلامی بنیادوں کو کھوکھلا کرنیوالوں کا سخت محاسبہ کررہی ہے۔ آج بھی مجید نظامی کی نظریاتی صحافت مظلوم کی صدا اور عوام کی نواءہے۔ نوائے وقت و مجید نظامی کی ذات سے نظریاتی و دیگر نوع کا اختلاف و بعد رکھنے والے بھی جناب مجید نظامی کی نظریاتی صحافت کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کا اعتراف کرتے ہیں۔ جناب مجید نظامی کی نظریاتی صحافت نے لاتعداد ابن الوقت صحافیوں کو بھی ناکوں چنے چبا رکھے ہیں۔ مجید نظامی صاحب کے نوائے وقت نے جس حکومت کی اصلاح کیلئے مثبت تنقید کا راستہ اختیار کیا اس حکومت نے نوائے وقت اور مجید نظامی کو اپنا ناقد و دشمن سمجھا اور ہر دور نے اس مثبت تنقید و اصلاحی کردار کو قدر دانی کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ خصوصاً ہر مارشل لاءدور میں مجید نظامی کو زیرِعتاب رکھا گیا۔ نیوز پرنٹ کی سپلائی بند ہوئی تو اشتہارات کی بندش بھی کی گئی۔ ادارہ نوائے وقت و دی نیشن کے دفاتر پر بارہا حملے ہوئے۔ بارہا ادارہ نوائے وقت کے کارکنوں کو دھمکیاں ملتی رہیں۔ صحافیوں پر تشدد ہوئے۔ کئی مرتبہ نوائے وقت و دی نیشن کے صحافیوں کو زدوکوب بھی کیا گیا۔ جناب مجید نظامی کو حق گوئی کی سزا میں مختلف ادوار میں اتنا معتوب رکھا گیا کہ آپ کو اپنی زندگی میں ایک نہیں بلکہ تین بار دل کے بائی پاس کروانا پڑے گویا مجید نظامی اور مجید نظامی کے ادارے نوائے وقت کے خرمن پر بجلیاں گرتی رہیں مگر مجید نظامی نے اصولوں پر سمجھوتے نہ کئے‘ مجید نظامی نے اصولوں پر سودے بازی نہ کی۔ اندرون سندھ‘ بلوچستان اور سرحد میں دائمی امن قائم ہو۔ عالمی برادری میں ہم ایک باوقار قوم بن کر ابھریں کہ ہمیں غیروں کا زیرنگیں نہ ہونا پڑے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صدی کا جو عظیم رہنماءصحافی مجید نظامی کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا ہے وہ اسی طرح نوائے وقت کی سالہا سال سالگرہ مناتا رہے.... سلامت رہے.... ہمارا روحانی باپ ہمارے سر پر ہمیشہ سلامت رہے۔ آمین ثم آمین!

ای پیپر دی نیشن