”بچہ ابھی کچا ہے“

نواز خان میرانی
کئی برس پہلے کا ذکر ہے کہ قطر میں ایک نوجوان نے اپنے ہم عمر کا قتل کر دیا، قتل کے مجرم کا سرقلم کرنیکے منظر کو دیکھنے کیلئے لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا۔ شہر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا کہ جو مجرم کو سزا دینے کی بجائے اسکے قصاص اور دیت کے تقاضوں کو دیکھنے کےلئے موقع پہ موجود نہ ہو۔ سزا دینے سے قبل مقتول کی ماں کو قاتل کے لواحقین کی طرف سے منہ بولی رقم کی پیشکش کی گئی مگر مقتول کی ماں نے انکار کر دیا۔ قاتل چونکہ نوعمر اور شکل و صورت سے بھولا معصوم اور نہایت خوبصورت تھا لہٰذا اس کو سزا سے بچانے کےلئے نہ صرف عوام بلکہ سزا دینے والے بھی بیسیوں کو بڑھانے کی بولی میں شریک ہو گئے مگر بڑی سے بڑی رقم کو بھی مقتول کی ماں نے حقارت سے ٹھکرا دیا اور وہ بضد رہی کہ مجھے اپنے بیٹے کے سر کی بجائے قاتل کا سر چاہئے۔
آخر کار اسلام کے سنہرے اصولوں کی پاسداری کی خاطر اور اللہ کے قانون اور خدا کی حاکمیت اعلیٰ کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے، قاتل کا سر چشم زدن میں اڑا دیا گیا، اس وقت اللہ کے محبوب کی اپنی محبوب بیٹی کے بارے میں کہے گئے الفاظ کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ قلم کرا دیتا اور شہنشاہ جہانگیر کے اپنے نبی محترم کی تقلید اور تعمیل احکام میں یہ کہنا کہ اگر میری محبوب ملکہ نور جہاں کو مقتول کے لواحقین معاف نہ کرتے تو میں اسے بھی پھانسی پر چڑھا دیتا مگر نور جہاں کو پھانسی دینے کے بعد میں بھی زندہ نہ رہ سکتا مگر انصاف کو کسی قیمت پر بھی نہ چھوڑتا۔
ایک بزرگ واصف علی واصف کا قول ہے جس نے لوگوں کو دین کے نام پر دھوکہ دیا اس کی عاقبت مخدوش ہے کیونکہ عاقبت دین سے ہے اور دین میں دھوکہ نہیں اگر دھوکہ ہے تو دین نہیں۔
اب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں کیا ہوا، اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کے ملک میں دین کے نام پر دھوکہ دیکر اپنی دنیا سنوار کر اپنی آخرت اور عاقبت کو برباد کر دیا گیا کیونکہ دیت کے قانون کو پورا ہی نہیں کیا گیا۔ اگر اس ملعون کو جسکے آرام کی خاطر اللہ اکبر کی آواز کو خاموش کرا دیا گیا اور یہی فلاح کا راستہ ہے جو اذان میں بتایا گیا۔ اس راستے پہ ریمنڈ کے کہنے پر حاکموں نے چلنے سے انکار کر کے اذان کو بند کرا دیا۔ اللہ تو اپنے ولیوں یعنی دوستوں کے ساتھ ناروا سلوک کا بدلہ لیتا ہے مگر جہاں اس کے اپنے اور اس کے حبیب کے متعین کردہ راستے کو ہی مخدوش کر دیا جائے تو پھر قانون قدرت ضرور حرکت میں آتا ہے اور جلد یا بدیر اسکا اطلاق ظہور پذیر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں جو کوئی بھی مغالطے میں ہے وہ تاریخ کا مطالعہ کرے، ہماری کم ہمتی اور بے غیرتی کا نتیجہ یہ نکلا اور ہمارے شک کی تائید ریمنڈ کے افغانستان پہنچنے کے بعد ڈرون حملوں میں درجنوں ہم وطنوں کی لاشیں گرتی نظر آئی ہیں مگر ہمارے حاکموں کی زندہ لاشیں اسکا ادراک رکھنے کے باوجود ادراک نہیں رکھتیں، ہم تو اس پہ بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ ریمنڈ کی واپسی پہ گارڈ آف آنر نہیں دیا گیا، پہلے پہلے سینکڑوں ہم وطنوں کے قاتل کو دیا گیا تھا مگر پہ در پہ کراچی کی گرتی لاشوں پہ اس کی خاموشی دیکھ کر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ”بچہ ابھی کچا ہے“۔

ای پیپر دی نیشن