عمران خان، کیا چاہتا ہے ؟

23مارچ کو مینار ِ پاکستان کے سائے تلے انقلابی لیڈر عمران خان کے بائیں بازو یعنی شاہ محمود قریشی کی پر جوش تقریر کے چند الفاظ کانوں تک پہنچے ،وہ جذبات سے لبریز آواز میں لوگوں سے پوچھ رہے تھے ۔عمران تم لوگوں سے کیا چاہتا ہے ؟ عمران تم لوگوں سے یہ چاہتا ہے ، عمران کیا کہتا ہے ، عمران یہ کہتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔لمحہ بھر کو سوچا یہ عمران خان کون ہے ؟ یہ جو مینار پاکستان کے میدان میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ، اس کی وجہ سے یہ عمران خان عمران خان ہے ۔ کیا یہ لوگ اپنی طاقت سے نا واقف ہیں ؟ یہ لوگ نعرہ تو تبدیلی اور انقلاب کا لگا رہے ہیں مگر کیا یہ جانتے ہیں کہ ان کا یہ رویہ اور تابعداری کا یہ انداز پھر سے انہی اسی صف میں لاکھڑا کرے گا جہاں محمود و ایاز کبھی برابر نہیں ہوسکتے ۔جب سب لوگ با ادب ہوکر شاہ صاحب کا یہ پیغام سن رہے تھے کہ عمران کیا چاہتا ہے ؟ تو کیا لاکھوں لوگوں میں سے کسی ایک کے دماغ میں بھی یہ خیال آیا کہ ہمیں یہ کیوں بتایا جا رہا ہے کہ عمران کیا چاہتا ہے ؟ ہمیں یہ کیوں نہیں پوچھا جارہا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔23 مارچ سے اور بھی بڑی یادیں وابستہ ہیں ، جو2013 کے اس تاریخی جلسے کی وجہ سے کسی کو بھی یاد نہیں رہیں ۔تھوڑا سا یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
23مارچ کا دن دو حوالوں سے بہت اہم ہے ۔1 193 کو 23مارچ ہی کو شہر لاہور میں آزادی کے ہیرو، بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو تختہ ِ دار پر چڑھا دیا گیا ۔برطانوی راج کو ہندوستان سے نکالنے والے یہ نوجوان( جن کا مذہب ہندوستان تھا ، سکھ ، عیسائی ،ہندو یا مسلمان نہیں ) انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ساتھ ۔میدان ِ عمل میں اترے ۔ ان کا مقصد صرف برطانوی راج سے چھٹکارہ پاناہی نہیں تھا بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد کے ہندوستان کی شکل بھی ایک متوازن اور معتدل معاشرے کی صورت دیکھنا چاہتے تھے ، جس میں عوام کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں جوخواص کو ہوں ۔ بھگت سنگھ کہتا تھا ہمارا جوان خون بہت زیادہ انتظار کی تاب نہیں لا سکتا ۔۔اس لئے اس نے صرف 24سال کی عمر میںپھانسی کا پھندہ ہنسی خوشی قبول کر لیا کہ شائد اس کی موت وہ تبدیلی دنوں میں لے آئے جو ویسے سالوں میں ممکن ہو ۔مینار ِ پاکستان پر شاہ محمود قریشی جو2013 کے انقلاب کے داعی ہیں فرما رہے ہیں۔عمران تم سے کیا چاہتا ہے ؟ 1931میں کی گئی آزادی کے ہیرو کی جلد بازی آج کے دن تک بے تاثیر ہی رہی ۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔
ہندو ، سکھ ، مسلم مذہب کا جن بوتل سے نکال دیا گیا ۔ جس نے پہلے شلواریں اتار کر فیصلے کئے کہ کس کو قتل کرنا ہے اور کس کو نہیں اور پھر کرپانیں ، داڑھیاں دیکھ کر اور پھر شناختی کارڈ اور چہرے کے نین نقش دیکھ کر ۔ سیکولر آزادی کی تحریک مذہب کی بنیاد پر قتل و عصمت دری کرنے لگی ۔خون کے چھینٹے اڑتے رہے، عزتیں پامال ہوتی رہیں مگر جاگیردارنہ یا سرمایہ دارنظام ایک اینٹ بھی نہ سرکا سکا ۔نام نہاد آزادی کے بدلے آپ تھرڈ ورلڈ ، یعنی تیسری دنیا کے باسی قرار دے دیے گئے ۔ غریب کے معاشی مسائل حل کرنے اور مساوی حقوق کے حصول کی بجائے،مذہبی اور لسانی مسائل کی لڑائیاں چھڑ گئیں ۔ جن علماءکا فرض محبت سے مذاہب کو پھیلا نا تھا ، انہوں نے اسے سیاست کی ٹوپی پہنا کر ایک دوسرے سے نفرت کی وجہ بنا دیا ۔
نواب نواب ہی رہے ، مزارعے گدھے ہی رہے ۔ اور گدھے گھاس پھونس ہی کھاتے رہے ۔ کیا بدلا ؟ امیر کا غریب سے یا خواص کا عوام سے اندازِ تخاطب تک نہ بدلا ۔
آپ نے ہندوستان بھی آزاد کروا لیا ، پاکستان بھی بنا لیا ،اوربنگلہ دیش بھی لے لیا ۔۔مگر کہیں ایک جگہ پر بھی نظام بدلا ؟ سیاست دانوں کو سیاسی کامیابیاں تو ملی ہونگی ، کیا غریب کو اسکے حقوق ملے ؟حقوق تو دور کی بات کیا غریب کو زبان ہی مل سکی ؟جس راہ میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی شہید ہوئے وہ راہ تو بہت دھندلا گئی ہے ۔
 1857 کی بغاوت کے بعد جو لوگ نوازے گئے وہ ہی آج کے جاگیردار اور نواب ہیں ۔جو کل ان کے خدمتگار تھے وہ آج بھی دروازوں سے بندھے ، جنگلوں کے پیچھے دھتکارے ہوئے ہیں ۔ملک در ملک تقسیم ہونے کے بعد بھی آزادی کے شہیدوں کا نعرئہ انقلاب منزل کو پہنچ سکتا ہے اگر لیڈر سٹیج پر کھڑا ہوکر یہ پوچھے کہ ۔۔اے لوگو !! تم بتاﺅ ہم کیاکریں ۔۔ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟ یہ نہ کہے کہ ۔۔ لیڈر تم سے کیا چاہتا ہے ۔۔ ؟لیڈر کو پہلے ہی خدا بنا دو گے تو پھر وہ تو نہ اترا زمین پر ۔
عوام پہلے ہی آرمی اور سیولین اشرفیہ کے بہت ناز نخرے اٹھا چکی ہے ۔ اب اگر تبدیلی کا نعرلگا ہی رہے ہو توتبدیلی لے کر بھی تو آﺅ ۔ مٹھائی کا ڈبہ تبدیل کر تے رہو گے اور اندر سے وہی سڑی بسی صدیوں پرانی بد ذائقہ مٹھائی ہی کھلاﺅ گے تو کیاجواب دو گے ان بزرگوں کی روحوں کو جو یہ کہتے ہوئے جلدی جلدی پھانسی پر چڑھ گئے تھے کہ انقلاب کے لئے ہم اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔ آج تو انکے انتظار کی انتہا ہوگئی ہے۔ آج تو غریب کو سٹیج پر لیڈر کے دائیںبائیں آنے دو ۔ نیچے سے آنے والی قیادت جس دن اس ملک پر چھا جائے گی ، اس دن میں سمجھوں گی تبدیلی آگئی ،غریب کا ، سرکاری سکول میں پڑھا بچہ کھڑے ہوکر تقریر کریگا اور لوگ اسکی ذہانت کے آگے سرنگوں ہوجائیں گے ، تو میں سمجھوں گی تبدیلی آگئی ۔ابھی تو آزادی کے شہیدوں کا خون مٹی میں ہی رُل کھپ رہا ہے۔ ابھی کسی نے بڑھ کر اسے سینے سے نہیں لگا یا ۔ ابھی تو لوگ یہ جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ تبدیلی کا وعدہ کرنے والا ان کا لیڈر عمران خان ان سے کیا چاہتا ہے ؟

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...