حال ہی میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ”بابائے قوم“ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی‘ ارشاد ہوتا ہے۔
-1 بانی پاکستان اور انکے ساتھیوں نے امریکہ سے پاکستان کو تسلیم کرنے اور امداد کے لئے منت سماجت کی۔
-2 جناح سے لے کر ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ بھٹو اور ضیاءالحق نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر اڈے قائم کرنے کی اجازت دی۔
جو حضرات قیام پاکستان کے موقع پر علاقائی یعنی پاک بھارت پس منظر اور بین الاقوامی سیاسی صورتحال سے آگاہ ہیں اور اس تناظر میں قیام پاکستان کے راستے میں جو رکاوٹیں پیدا کی جا رہی تھیں ان سے جزوی طور پر بھی واقف ہیں انہیں یقیناً اس امر کا ادراک ہو گا کہ عین اس وقت جب بھارت اور سوویت یونین ایک دوسرے سے روابط بڑھاتے ہوئے پاکستان کے قیام کے خلاف ہولناک سازشیں کر رہے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بصیرت نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس دور کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کا تعاون حاصل کریں۔ قیام پاکستان کے وقت اگر قائداعظم اینگلو امریکی بلاک سے تعاون حاصل نہ کرتے تو پاکستان یکہ و تنہا ہی نہیں بے دست و پارہ جاتا۔ اسے وہ عسکری قوت حاصل نہ ہوتی۔ اس وقت عالم اسلام کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی مسلمان ملک اپنے پا¶ں پر کھڑا نہیں تھا تمام مسلمان ممالک انتہائی ضعف کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ طاغوتی طاقتیں پوری کوشش میں مصروف تھیں کہ مسلمانوں میں کسی طرف سے بھی کوئی ایسی صورت سامنے نہ آنے پائے اور وہ ایک مضبوط قوت کی صورت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو یہ بصیرت اسلئے حاصل ہوئی کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کے زوال اور محرومیوں سے پوری طرح واقف تھے بلکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اگر انہوں نے اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہ کئے تو سوویت یونین کا کمیونسٹ بلاک پاکستان کو ہرگز ہرگز زندہ نہیں رہنے دے گا۔ اس لئے قائداعظم نے جو کچھ بھی کیا وہ وقت کا انتہائی موثر تقاضا تھا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پاکستان ایک طرف اینگلو امریکی بلاک اور دوسری طرف بھارتی سوویت یونین اشتراکی بلاک کے درمیان پس جاتا۔ یہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور وسیع عالمی سیاسی تجربہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے نہایت درست راستہ اختیار کیا۔ اگر آپ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال پر نگاہ رکھتے ہیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان جو اس وقت مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد فاصلے پر موجود تھا کس طرح اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ تاریخ کے صفحات میں یہ حقائق محفوظ ہیں کہ نہ صرف ہندو مہا سبھائی بلکہ کانگریسی لیڈروں نے بھی یہ تجزیاتی تصورات پیش کئے تھے کہ پاکستان صنعتی اور تجارتی لحاظ سے کسی صورت میں نہیں چل سکتا۔ ہر کوئی یہ کہتا تھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا ایسا خلاءموجود ہے جس کی قوت ایک انتہائی شدید دشمن بھارت کے ہاتھ میں ہے اس دور کے اخبارات و جرائد کا مطالعہ کر لیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہندو مفکر اور سیاسی تجزیہ کار اپنے مضامین‘ افکار اور تقاریر میں یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ اپنے قیام کے تین ماہ بعد تک ہی زندہ رہ سکے گا لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ عالمی حالات کے تقاضے کیا ہیں؟ ایک طرف سوویت یونین بلاک ہے اور دوسری طرف اینگلو امریکی قوت دنیا پر چھائی ہوئی ہے بھارت کا گہرا اور قریبی تعلق سوویت یونین کے ساتھ قائم ہو چکا تھا اوراس حقیقی صورتحال کی موجودگی میں سیاسی بصیرت کا یہی تقاضا تھا کہ پاکستان اپنے لئے کوئی مضبوط دوست حاصل کرے ادھر خود اینگلو امریکی بلاک کو ضرورت تھی کہ وہ بھارت کے مقابلے پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے خطوں میں اپنے لئے کوئی جگہ BASE حاصل کر سکے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ جو اپنے دور میں مسلمانوں کے سب سے زیادہ نامور‘ قابل اور عالمی سیاسی نشیب و فراز سے آگاہ تھے کس طرح اس حقیقت کو نظرانداز کر سکتے تھے کہ پاکستان اپنے لئے کوئی ناقابل تسخیر دوست حاصل نہ کرے؟
قائداعظمؒ کیخلاف حسین حقانی کی نئی ہرزہ سرائی
Mar 28, 2013