رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب

ملک میں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ نگران حکومتوں کے قیام کا عمل تیزی سے مکمل ہو رہا ہے۔ امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پانچ سال تک حکومت کے ایوانوں میں رہ کر اقتدار کے سارے ثمرات صرف اپنی اپنی ذات کیلئے سمیٹ لینے اور عوام کی محرومیوں میں کئی گنا اضافہ کر دینے کے بعد سیاستدان اپنے گھروں میں واپس لوٹ گئے ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال ....
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
پاکستان اس وقت ایک بے پناہ مشکلات میں گِھرا ہُوا ملک ہے۔ ہر آنے والا دور اور ہر آنے والا حکمران پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان کی ناکامیاں درحقیقت اس محدود اشرافیہ کی وجہ سے ہیں جو بار بار پاکستان کے اقتدار پر قبضہ تو کر لیتی ہے کبھی فوج کے ذریعے سے اور کبھی عوام کے ووٹوں کو چُرا لینے کے بعد لیکن اس محدود اشرافیہ نے ریاستی اداروں کو دن رات لوٹنے اور عوام کو محرومیاں دینے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ جب ملک کا اقتدار چند مخصوص خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جائے گا اور ایک محدود طبقہ ہی ملک کے نظام اور ریاستی اداروں پر قابض رہے گا اور ملک کی دولت کو بے دھڑک لوٹنے والوں کو ہم بار بار منتخب کرتے رہیں گے یا فوجی جرنیلوں کے وفادار سیاستدانوں کا ایک مخصوص گروہ محلاتی سازشوں کے ذریعے ملک کے اقتدار پر مسلط ہوتا رہے گا تو پھر ہم ملک کو اس Vicious (نقصان دہ چکر) سے نہیں نکال سکتے جس میں ہم گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جھرلو، دھاندلی اور فوج کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لینے کی روایت کو اگر ہم ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور انتخابات کے ذریعے ایک عام مگر باصلاحیت اور تعلیم یافتہ آدمی کو اگر ہم اقتدار میں لانے میں کامیابی حاصل کر لیں تو اس ملک کو آج بھی ہم ناکامیوں اور محرومیوں کے دائرے سے باہر نکال سکتے ہیں۔
عام انتخابات کی صورت میں قدرت نے ہمیں ایک اور مہلت اور موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے ووٹوں کی طاقت سے قومی حالت میں تبدیلی کی بنیاد رکھ سکیں۔ اگر موجودہ الیکشن کمشن آف پاکستان میڈیا اور سول سوسائٹی کے بھرپور تعاون سے ملک میں ایک قابل اعتماد اور شفاف الیکشن کروانے میں کامیاب ہو گیا اور عوام بھی اقتدار پر بار بار قابض ہونے والی محدود اشرافیہ کے خلاف اپنے ووٹوں کی طاقت سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئے تو ملک میں ایک دیرپا اور مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر عوام اس دفعہ بھی اپنا ووٹ مثبت تبدیلی کیلئے استعمال کرنے میں ناکام ہو گئے تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جانے پر ہمیں پچھتانا نہیں چاہئے۔ قدرت نے عام انتخابات کی صورت میں ہمیں جو مہلت دی ہے اب اسے اپنے حق میں استعمال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے یہ ذمہ داری سنجیدگی اور دیانتداری سے ادا نہ کی تو پھر اپنی بدقسمتیوں اور محرومیوں کے ہم خود قصور وار ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی خامیوں کو مزید جمہوریت ہی سے دور کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم جمہوری حکومتوں کے مواقع میسر آنے کے بعد بھی مزید غلطیاں کرتے جائیں، مزید خامیاں پیدا کرتے چلے جائیں اور اپنی سابقہ خامیاں بھی دور نہ کریں تو پھر جمہوریت میں بھی عوام کا بھلا نہیں ہو سکتا ....
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہُوا
جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ اختیارات و اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔ حقیقی جمہوریت یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت میں عوام کی بھلائی اور بہتری کیلئے کام بھی کئے جائیں۔ جمہوریت اور جمہوری نظام کا اصل مقصد و منشا اور حتمی منزل عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ اگر جمہوریت میں بھی ایک محدود اشرافیہ کی حکومت بار بار قائم ہو جائے اور یہ حکومت اس محدود اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنی رہے جیسے ہمارے گزشتہ پانچ سال گزرے ہیں تو یہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر جمہور عوام سے سب سے بڑا فریب ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری ادوار میں بھی غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر کے انتخابی نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ عوام کو آنے والے انتخابات میں ان سارے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا ہو گا اور مخصوص سیاسی گروہوں سے اپنے شعور کی طاقت سے اقتدار کا قبضہ چھڑانا ہو گا تاکہ عوام کا بخشا ہوا اقتدار اور اختیارات عوام ہی کے لئے استعمال ہوں۔ اب یہ شیطانی چکر ختم ہو جانا چاہئے کہ مملکت کا اختیار اور اقتدار تو عوام کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہو لیکن یہ اختیارات عوام کے حق میں استعمال ہونے کے بجائے چند خاندانوں کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن جائیں۔ عوام کیلئے روٹی، کپڑا، مکان اور دوا کے نعرے درست ہیں کہ عام انتخابات کے بعد بھی اگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکے تو پھر مسیحائی کے سارے دعوے جھوٹے ہیں۔ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدانوں سے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کرپشن، مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی، بے گناہ اور معصوم عوام کا قتل، بلوچستان، کراچی اور خیبر پی کے میں ٹارگٹ کلنگ میں مکمل ناکامی، بجلی اور گیس کی ناقابل برداشت حد تک لوڈشیڈنگ، قومی اداروں کی تباہی اور ملکی معیشت کی مکمل بربادی کے بعد اب وہ کون سا منشور باقی ہے جس پر عمل کرنے کیلئے وہ عوام سے دوبارہ ووٹ مانگ رہے ہیں۔ سورج کے روپ میں آنے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں نے ہرگھر کی شمع بُجھا دی ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راجا کی مثال پچھلے پانچ برس تک حکومت کرنے والوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ کرپشن، بدنظمی، افراتفری اور انارکی کی بدترین مثالیں قائم کر کے رخصت ہونے والے حکمران اگر عوام سے دوبارہ ووٹ کے طلبگار ہیں تو ہم انتہائی معذرت کے ساتھ غالب کی زبان میں اُن سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ....
کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہمارے محترم سیاستدان اب عوام کو اتنا بھی بے شعور نہ سمجھیں کہ عوام ملک کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار سیاسی گروہوں کو دوبارہ آنیوالے انتخابات میں منتخب کر لیں گے۔ عوام اب اس سیاسی اشرافیہ سے بیزار ہو چکے ہیں جس نے اس بدقسمت ملک کو بھوک، مفلسی، مہنگائی اور دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ عوام کا موڈ تبدیلی کے حق میں ہے ....
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
حالات چاہے کتنے ہی نازسازگار کیوں نہ ہوں، ہَوا کتنی ہی تند و تیز اور مخالف کیوں نہ ہو اب عوام کو اپنے معاملات حل کرنے کیلئے اختیارات خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے ....
برہم ہوں بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں
کچھ بھی ہو اہتمامِ گلستاں کریں گے ہم

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...