دہشتگردی کی جنگ میں 49 ہزار شہریوں کی جانوں کی قربانی‘ حساس اداروں کی چشم کشا رپورٹ....کیا اب دہشتگردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑنا اور بھی ضروری نہیں ہو گیا؟

Mar 28, 2013

حساس اداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدی اور ایکشن ایڈ سول پاور آرڈی نینس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز فاٹا فوجی اپریشن کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 15 ہزار پانچ سو سکیورٹی اہلکاروں سمیت اب تک ملک کے 49 ہزار شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے اس رپورٹ کی بنیاد پر گزشتہ روز سیکرٹری فاٹا سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔ حساس اداروں کی جانب سے راجہ ارشاد ایڈووکیٹ نے عدالت عظمیٰ میں جو رپورٹ پیش کی‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں چھ ہزار سے زائد سرچ اپریشن کئے گئے‘ 612 بڑے اپریشن ہوئے جبکہ 2008ءسے 2013ءتک کے پانچ سال کے عرصے میں 235 خودکش حملے ہوئے اور 9 ہزار 257 راکٹ حملے کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانچ سال کے متذکرہ عرصہ کے دوران فاٹا میں چار ہزار دہشت گرد مارے گئے جبکہ 5512 سویلین باشندے‘ ایک ہزار 479 فوجی اور 675 ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔ اس دوران فاٹا میں 4 ہزار 256 بم حملے ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان اب فرقہ ورانہ رویہ اختیار کر چکی ہے جبکہ شدت پسندوں نے صوبہ خیبر پی کے میں ایک ہزار سے زائد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں کالعدم تحریک طالبان سوات کے افغان حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
حساس اداروں کی اس چشم کشا رپورٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں ہمیں کس وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ قبل ازیں سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹوں میں افغان جنگ کے دوران پانچ ہزار کے قریب فوجی اہلکاروں اور افسران سمیت چالیس ہزار کے قریب شہریوں کے جاں بحق ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ اب حساس اداروں کی رپورٹ میں جاں بحق سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد ساڑھے 15 ہزار بتائی گئی جو افغان دھرتی پر جاری جنگ میں 49 نیٹو ممالک کی فوجوں کے مجموعی جانی نقصان سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے تین لاکھ کے قریب عام شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھے جبکہ پوری افغان دھرتی کو تہس نہس کردیا گیا چنانچہ نیٹو فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان کی تعمیرنو میں کئی سال لگ جائینگے۔ اسکے باوجود افغانستان کی تباہ حال معیشت کی بحالی شاید ہی ممکن ہو پائے گی۔
افغانستان کو تو ان حالات کا سامنا کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی کی وجہ سے کرنا پڑا‘ جنہوں نے نائن الیون کے بعد اپنے اقتدار کی خاطر اس وقت کی طالبان حکومت کی مخبری کرکے اور پھر طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد طالبان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرکے نیٹو فوجوں کے ہاتھوں افغانستان کا تورابورا بنوایا اور امریکی بیساکھیوں کے سہارے حصول اقتدار کی ہوس میں کامیابی حاصل کی۔ اسکے برعکس پاکستان تو اس جنگ میں براہ راست فریق بھی نہیں تھا مگر اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے بھی اپنے آمرانہ جرنیلی اقتدار کے تحفظ کی خاطر امریکی ٹیلی فونک دھمکی پر ڈھیر ہوتے ہوئے پاکستان کو بھی اس جنگ کی جانب دھکیل دیا۔ انکی جانب سے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے نتیجہ میں ہی ہماری سرزمین دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کی آماجگاہ بنی جبکہ امریکی ڈرون حملوں اور فاٹا‘ باجوڑ سمیت جنوبی وزیرستان کے متعدد مقامات پر امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور پھر فوجی اپریشن کے دوران بھی عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کا تناسب زیادہ رہا۔ ڈرون حملوں کو تو خود امریکی اداروں اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی جانب سے بھی انسانیت کیخلاف سنگین جرم کے زمرے میں شامل کیا جا چکا ہے جن سے امریکہ کو اپنے اہداف تک پہنچنے میں صرف آٹھ سے دس فیصد تک کامیابی ہوئی اور 90 فیصد سے زیادہ عام شہری ان حملوں میں لقمہ¿ اجل بنے جبکہ اپاہج ہونےوالے شہریوں کی تعداد ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونیوالوں سے بھی زیادہ ہے جو اپنے خاندانوں پر مستقل بوجھ بن چکے ہیں۔ گزشتہ سال جاری کی گئی امریکی تعلیمی اداروں کی سروے رپورٹ میں بطور خاص اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ ڈرون جہازوں کی محض پروازوں کے خوف سے قبائلی علاقوں کے شہریوں میں پیدا ہونیوالی خوف و ہراس کی فضا سالہا سال ان کیلئے ذہنی اذیت کا باعث بنی رہے گی جبکہ ان حملوں میں جن لوگوں کے کاروبار تباہ ہوئے اور جن خاندانوں کے واحد کفیل ان حملوں کی بھینٹ چڑھے‘ وہ تمام خاندان ایک مستقل حسرت و ناامیدی میں ڈوب چکے ہیں اور اس بارے میں بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ بیرونی اداروں کی یہ رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ خودکش حملوں کی زیادہ تر وارداتیں ڈرون حملوں کے ردعمل میں ہوئی ہیں جبکہ ڈرون حملوں اور انکے ردعمل میں خودکش حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان دونوں حوالوں سے ملک کی سلامتی چیلنج ہو رہی ہے۔ دہشت گرد اور تخریب کار عناصر بھی ملک کی سلامتی سے کھیلنے کا عزم کئے بیٹھے ہیں اور ہماری سابقہ پارلیمنٹ کی قراردادوں‘ سول اور فوجی قیادتوں کے سخت ردعمل اور قومی اضطراب کے اظہار کے باوجود امریکہ نے ڈرون حملے بھی جاری رکھ کر پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سکیورٹی فورسز کے ساڑھے پندرہ ہزار اہلکاروں سمیت ملک کے 49 ہزار شہریوں کا دہشت گردی کی جنگ کی بھینٹ چڑھنا کوئی معمولی واقعہ نہیں‘ اس لئے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے یہی لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے آدھ لاکھ کے قریب شہریوں کی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود دہشت گردی کا عفریت ہمارے مزید بے گناہ شہریوں کو ہڑپ کرنے کیلئے منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے اور ہم اس پر قابو نہیں پا سکتے تو ہماری اب تک کی تمام جانی اور مالی قربانیاں ضائع چلی جائیں گی۔ اس تناظر میں جہاں ہماری سیاسی حکومتی قیادتوں کو دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں اٹھائے گئے پاکستان کے ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات کا نیٹو ممالک کو احساس دلا کر انہیں افغانستان کی طرح پاکستانی معیشت کی بحالی کیلئے بھی موثر کردار کیلئے آمادہ کرنے اور ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرانے کی ضرورت ہے‘ وہیں اب دہشت گردی کی جنگ کو ہرصورت منطقی انجام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ اگر آج ہم نے ملک کی سلامتی اور ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنیوالے دہشت گردوں سے ہار مان لی تو پھر انکی دہشت گردی کے پھیلاﺅ کی کوئی حد نہیں رہے گی اور اس ملک میں عملاً انسانیت کے دشمن دہشت گرد اور تخریب کار عناصر کا راج ہو گا اور ہم اقوام عالم میں راندہ¿ درگاہ ہو کر اپنی پہچان بھی کھو بیٹھیں گے۔ سپریم کورٹ میں پیش کردہ حساس اداروں کی رپورٹ میں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو ہونیوالے جتنے بھاری جانی نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے‘ اسکی بنیاد پر تو اب ملک کے شہریوں کو مزید جانی اور مالی نقصان سے بچانے کیلئے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اگر اس معاملہ میں کسی مصلحت یا مفاہمت سے کام لیا گیا تو یہ ملک کی سالمیت دہشت گردوں کے قدموں میں نچھاور کرنے کے مترادف ہو گا۔ اب جو بھی ہو‘ ہمیں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ جیتنی ہے جس کیلئے حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کو یکسو ہونا ہو گا ورنہ ملک کی سلامتی‘ استحکام اور ترقی و خوشحالی خواب ہی بنی رہے گی۔

مزیدخبریں