لاہور (سپیشل رپورٹر) تپ دق کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کا دنیا میں چھٹے نمبر پر ہونا اور ان مریضوں میں تقریباً چار لاکھ مریضوں کا سالانہ اضافہ ایک خطرناک انڈیکیٹر ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ معاشرے کا ہر ادارہ اور فرد اس متعدی مرض کو کنٹرول کرنا اپنا مذہبی، سماجی اور اخلاقی فرض سمجھے۔ ان خیالات کا اظہار ڈین انسٹی ٹیوٹ آ ف پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر معاذ نے انسٹی ٹیوٹ آ ف پبلک ہیلتھ میں ٹی بی کنٹرول سیمینار سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید بتا یا کہ تپ دق اور اس کی خطرناک صورت MDR تپ دق قابل علاج ہے اور اس کے لئے بروقت تشخیص اور مکمل علاج ہی اصل بچاﺅ ہے اگر کسی مریض کی کھانسی تین ہفتے تک ٹھیک نہ ہو اور وزن کم ہو رہا ہو تو اسے فی الفور تشخیصی مرکز میں پہنچ کر اپنے تھوک کا معائنہ کروانا چاہئے۔ ڈاکٹر شاہد، ڈاکٹر رابعہ، ڈاکٹر عمر فاروق، ڈاکٹر عبید اور ڈاکٹر رشیقہ بھی خطاب کیا۔