سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی لہر

احمد کمال نظامی
ملک میں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور نگران وزیر اعظم جسٹس(ر) ہزار خان کھوسو نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ عام انتخابات طے شدہ پرو گرام کے مطابق کرانے میں الیکشن کمیشن کی ہر ممکن مدد کریں گے اور کسی نے انتخابات کو گیارہ مئی 2013ءسے آگے بڑھانے کی کوشش کی تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے ۔ مسلم لیگ(ن) اور بر وقت انتخابات کے خواہاں دانشوروں اور سیاستدانوں کو اندیشہ تھا کہ عشرت حسین پر اگر انتخابات کو موخر کرنے کےلئے دباﺅ ڈالا گیا تو اس دباﺅ میں آجائیں گے ۔ اسی لئے جسٹس(ر) کھوسہ نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا ممکن نہیں ۔ عام انتخابات کیلئے گیارہ مئی 2013ءکا اعلان کر دینے کے بعد سیاسی جماعتوں کے لئے اس میں حصہ لئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں رہاہے ۔ اس وقت آئندہ انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کو فیورٹ قرار دیا جا چکا ہے ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف نے تیس اکتوبر 2012ءسے 23مارچ 2013ءتک اپنی جو سیاسی پہچان بنائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بعض سیاسی پنڈتوں کا خےال ہے کہ پنجاب اور صو بہ خیبر پختونخواہ میں اصل انتخابی دنگل تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) میں ہو گا اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے امید وار پہلی اور دوسری پوزیشن کےلئے اب بہت کم سیاسی جماعتوں یا ان میں سے کسی ایک کو منظر سے ہٹایا جا سکے گا ۔راولپنڈی کے انتخابی جلسے سے واپسی پر پیپلز پارٹی کی سر براہ قتل نہ ہو جاتیں تو ان کو ملنے والی ہمدردی کی لہر سے پیپلز پارٹی کے امید واروں کو پندرہ سے بیس فیصد اضافی ووٹ نہ مل پاتے ۔ چنانچہ مسلم لیگ(ن) الیکشن 1997ءکی طرح دو تہائی اکثریت سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ۔ مسلم لیگ (ن) جب 2008ءکے الیکشن میں اتری تو ایوان صدر میں وہی شخص براجمان تھا جس نے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدہ سے ملنے والی عسکری طاقت کے استعمال سے میاں نواز شریف کو وزارت اعظمیٰ کے عہدے سے الگ کرکے پابند سلاسل کیا تھا اور ازاں بعد ایک سازش کے تحت انہیں خاندان سمیت دس سال کےلئے سعودی عرب میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ فوجی حکمران کے ہاتھوں نیا پی سی او نافذ کر کے جن چیف جسٹس پاکستان افتخار محمدچوہدری سمیت سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس کے متعدد ججوں کو عہدوں سے الگ کر دیا گیا تھا ،مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے پارٹی کی طرف سے الیکشن 2008ءمیںان کی بحالی کا عہد کیا تھا ۔ بلا شبہ اسی وجہ سے مسلم لیگ(ن) 18 فر وری 2008ءکے الیکشن میں ملک کی دوسری اور پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری تھی۔ الیکشن 2008ء میںمسلم لیگ(ن)کے امید واروں نے اس کیلئے حلف اٹھایا تھا اور اس مرتبہ پارٹی قیادت نے قومی و صو بائی اسمبلیوں کے اپنے امید واروں سے کرپشن نہ کرنے اور ملک کے آئین و پارٹی سے وفاداری کا حلف لیا ہے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ زر داری مال وزر اکٹھا کرنے کو سیاسی کلچر سمجھتے ہیں ۔ اگر سپریم کورٹ حکمرانوں کی بار بار کی کرپشن کا نوٹس نہ لیتی تو سولہ مارچ 2013ءتک اقتدار میں رہنے والا حکمران ٹولا اس ملک کو اس طرح لوٹ چکا ہوتا کہ اس وقت پوری قوم گیارہ مئی کے انتخابات کی بجائے سابق حکمرانوں کے گھروں کے سامنے سراپا احتجاج بنی ہوتی ۔ مسلم لیگ(ن)کی اعلیٰ قیادت نے متوقع امید واروں سے کرپشن نہ کرنے کا حلف لے کر انتہائی شاندار قدم اٹھایا ہے ۔ ہر چند بہت کم امید ہے کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے کرپشن میں ملوث نہیں ہوں گے لیکن ایک بات تو سامنے آئی ہے کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو ملک میں مقتدر حلقوں کے ہاتھوں ہونے والی لوٹ مار کا احساس ہے ۔ میاں نواز شریف کو یقینا ن لیگ کے ان ارکان کی کرپشن کا بھی علم ہو گا جو وہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کی آڑ میں کرتے رہے اور ان امید واروں کی کرپشن کا بھی یقینا احساس ہو گا جو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے گزشتہ چند ماہ میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے کرتے رہے ۔ مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواروں سے بیشک آئین اور پارٹی سے وفاداری کا حلف بھی لیا ہے لیکن ان میں سے اکثر آئین کی دفعہ 62 ‘ دفعہ 63 پر پورے نہیں اترتے اور جو لوگ دھڑا دھڑ سیاسی وفاداریاں بدل کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں وہ پارٹی سے کیا عہد کس حد تک نباہ سکیں گے، اس کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن جب پارٹی ٹکٹ جاری کر رہی ہے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر دوسری سیاسی جماعتوں کا رخ کرنے والوں سے کون پوچھے گا کہ انہوں نے جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف کے سامنے کیا کیا حلف اٹھا رکھا تھا ۔

ای پیپر دی نیشن