ایک سیکولر زدہ ”پیر زادے“ کے نام

معروف کالم نگار عطاءالحق قاسمی کے والد گرامی مولانا بہاءالحق قاسمی نے اپنے جدی بزرگوں کے شاندار علمی اور عملی کارناموں پر مشتمل ”تذکرہ اسلاف“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ ان کو امید تھی کہ ممتاز علماءدین کی زندگی اور دینی خدمات پر لکھی گئی کتاب ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے مشعل ہدایت ثابت ہو گی۔ مولانا بہاﺅ الحق قاسمی نے اپنی کتاب میں بڑے فخر سے تحریر کیا ہے۔ کہ ان کے والد محترم مولانا پیر غلام مصطفیٰ قاسمی کے مایہ ناز شاگردوں میں امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور مولانا مفتی محمد حسن بھی شامل تھے۔ بہر حال مولانا بہاءالحق قاسمی کی اپنے صاحبان علم و عرفان بزرگوں پر لکھی ہوئی یہ کتاب اوروں کے لئے تو مشعل ہدایت کیا ثابت ہوئی خود ان کے خاندان کی نئی نسل نے بھی اس کتاب سے رہنمائی لینے سے انکار کر دیا ہے۔ بہاءالحق قاسمی کے ایک پوتے ”پیر زادہ“ یاسر قاسمی کو تو اسلام سے اتنی الرجی ہے کہ انہیں اسلام اور پاکستان کے رشتے سے متعلق قائد اعظم کے تمام فرمودات ہی سے انکار ہے۔ ان کا خیال ہے قائد اعظم ایک سیکولر سیاست دان تھے اور پاکستان کے لوگ خواہ مخواہ قائد اعظم کو ”مولوی محمد علی جناح“ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ”پیر زادہ“ صاحب نے اپنے کالم میں پہلا جھوٹ یہ لکھا ہے کہ محمد علی جناح نے بیرسٹری کے لئے ”لنکن ان“ میں داخلہ لینے کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے فقط جناح رکھ لیا یعنی محمد اور علی ان کے نام کا حصہ نہیں رہے تھے۔ محمد علی جناح نے ”لنکن ان“ میں تو داخلہ ہی اس وجہ سے لیا تھا کیوں کہ اس کی دیوار پر لکھے ہوئے دنیا بھر کے نامور قانون دانوں میں سب سے نمایاں نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا۔ اب رہا نام میں تبدیلی کا مسئلہ تو حقیقت حال یہ ہے کہ داخلے کے وقت قائد اعظم کا نام محمد علی جناح بھائی لکھوایا گیا تھا جو انہوں نے درخواست دے کر محمد علی جناح میں تبدیل کر لیا اور بھائی کا لفظ حذف کروا دیا۔ ان کی بیرسٹری کی سند پر صرف محمد علی جناح ہی لکھا گیا ہے۔ نوجوان کالم نگار لکھتے ہیں کہ ان کے کمرے میں کلین شیو جناح کی ایک تصویر آویزاں ہے لیکن ان کے ایک دوست کی خواہش ہے کہ وہ قائد اعظم کے چہرے پر داڑھی بڑھا کر اس کے نیچے ”مولوی محمد علی جناح“ لکھ دیں۔ میرے خیال میں ہنسی مذاق میں بھی یہ بات لکھنا کہ کسی دوست نے نوجوان ”پیرزادہ“ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ محمد علی جناح کی داڑھی بڑھا کر تصویر کے ساتھ مولوی محمد علی جناح تحریر کر دیا جائے۔ ویسی ہی بے ہودگی ہے جیسے کوئی اس کالم نگار کو یہ مشورہ دے ڈالے کہ وہ اپنے دادا مولانا بہاﺅ الدین قاسمی کی داڑھی صاف کر کے ان کی تصویر کے ساتھ مسٹر بہاءالدین قاسمی لکھ دو۔ اب آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے قائد اعظم کا ویژن کیا تھا۔ 19 اگست 1941ءکے ”رہبر کن“ میں مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازم کیا ہیں؟ کے جواب میں قائد اعظم کا یہ فرمان شائع ہوا ہے ”میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ملا نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کا روحانی پہلو، معاشرت، سیاست، معیشت غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایت پر اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کے لئے بھی سلوک اور آئینی حقوق کا سب سے بہتر تصور موجود ہے“۔
”رہبر کن“ ہی میں قائد اعظم نے طلبہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”اسلامی حکومت کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اس میں اطاعت او وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے۔ اس لئے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی ، نہ کسی شخص یا ادارہ کی، قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآن کے اصولوں اور احکام کی حکمرانی ہے“۔
قائد اعظم کے درج بالا فرمودات یقیناً کسی مولوی یا مولانا کے فرمودات نہیں ہیں لیکن کیا قائد کی یہ تعلیمات پڑھنے کے بعد بھی کوئی انصاف پسند یہ الزام عائد کر سکتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں سیکولر طرز حکمرانی کے حق میں تھے۔ قائد اعظم کی ایک طویل تقریر 12جون 1938ءکے روزنامہ انقلاب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو ”مسلمانوں کو پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو سال برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے۔ اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی ، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الیہہ پر ایمان ہے اور میں جو آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام کی تعمیل ہے۔ تعلیم قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے۔ اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔“
ایک مولوی یا مولانا کے پوتے کو اگر داڑھی کی تضحیک کر کے خوشی ہوتی ہے تو وہ اپنا شوق ضرور پورا کرے لیکن اس سوال کا جواب اس کے پاس کیا ہے کہ جب قائد اعظم یہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی صورت میں ہمارے پاس ایک مکمل پروگرام موجود ہے جس میں معیشت بھی ہے، معاشرت بھی ہے اور سیاست بھی اور یہ کہ قرآنی تعلیمات پر عمل کر کے ہی ہم ترقی کی تمام منزلیں طے کر سکتے ہیں تو پھر قائد اعظم کے ویژن کو سیکولر قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے کیا قائد اعظم کو صرف کلین شیو ہونے کی وجہ سے سیکولر اور لبرل ثابت کیا جا سکتا ہے۔ داڑھی تو علامہ اقبال کی بھی نہیں تھی اور وہ ”مولوی محمد اقبال“ بھی نہیں تھے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ بڑے بڑے مولویوں نے مولاناﺅں اور پیرزادوں نے بھی دین اسلامی کی وہ خدمت نہ کی ہو گی جو مقام خدمت اسلام کے حوالے سے علامہ محمد اقبال کا ہے۔ قائد اعظم بھی اسلام کے سچے اور مخلص خدمت گزار تھے۔ یہاں میں کتاب ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی“ کے صفحہ231 پر شائع ہونے والے قائد اعظم کے ایک ارشاد کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ قائد نے کہا تھا کہ ”میں نے مسلمانوں کی جو خدمت کی ہے وہ اسلام کے ایک ادنی سپاہی اور خدمت گزار کی حیثیت سے کی ہے، اب پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے آپ میرے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظمؓ کے سنہری دور کی تصویر کھنچ جائے“۔
پھر قائد اعظم کی 14 فروری 1948ءکی بلوچستان کے سبی دربار میں کی جانے والی ایک ناقابل فراموش اور مشہور تقریر کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کرلیں۔ ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا راز ان سنہری اصولوں کی پیروی میں ہے جنہیں ہمارے قانون دینے والے حضور نبی کریم نے ہمیں عطا کیا۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیاد حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھنی چاہئےے۔“
قارئین قائد اعظم کے یہ ارشادات پڑھ کر اب خود ہی فیصلہ کر لیں کہ یہ خیالات سیکولر ریاست کے کسی مدعی کے ہو سکتے ہیں یا رسول کریم کے کسی سچے اور حقیقی پیروکار کے۔
نوجوان کالم نگار نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ قائد اعظم ترکی کے کمال اتاترک کے سیکولر ازم اور لبرل ازم سے بہت متاثر تھے۔ اگر اتاترک کا سیکولر ازم قائد اعظم کا آئیڈیل ہوتا تو وہ کبھی سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے 18 جون 1945ءکے پیغام میں یہ نہ فرماتے کہ ”پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ اس مسلم نظریے کا تحفظ ہماری اصل مراد ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور اثاثے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے۔“ حیدر آباد دکن کے طلباءسے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم نے صاف الفاظ میں یہ فرمایا تھا کہ ”جب انگریزی زبان میں مذہب Religion کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور محاورے کے مطابق میرا ذہن لامحالہ خدا اور بندے کے پرائیویٹ تعلق کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن میں خوب جانتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم نہیں ہے۔ کیوں کہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو اللہ کی عظیم کتاب کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔“
اب قائد اعظم کے یہ ارشادات پڑھ یا سن کر ساری دنیا کو تو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لئے حاصل نہیں کیا تھا۔ مگر ہمارے ہاں کا مٹھی بھر سیکولر طبقہ بھی یہ جھوٹا اور بددیانتی پر مبنی پروپیگنڈا اپنی روایتی ہٹ دھرمی کے ساتھ کئے جا رہا ہے کہ قائد اعظم سیکولر سوچ رکھنے والے سیاست دان تھے اور وہ مذہب کو سیاست میں شامل کرنے کے خلاف تھے۔ پاکستان کے سیکولر عناصر کے جھوٹ اور تضادات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا لیکن پاکستان کی بنیاد اسلام کو تسلیم نہیں کرتے۔ سیکولر طبقہ یہ بتائے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام نہیں تھا تو اور کیا تھا۔ قائد اعظم نے ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان دو قومی نظریے کی حقیقت کی وضاحت اپنے درج ذیل اشاروں میں کچھ اس طرح بیان فرمائی تھی ”ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں ہے۔ ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے اور ہمارا دین ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ “ (27 نومبر 1945ئ) دو قومی نظریے اور اسلام کے حوالے سے اگر قائد اعظم کی تمام تقاریر، بیانات اور انٹرویوز کا یہاں حوالے دئےے جائیں تو میرا یہ کالم کئی کالموں پر پھیل جائے گا۔ ویسے بھی میں اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کی نسبت سے قائد اعظم کے مزید فرمودات لکھ کر سیکولر عناصر کو اور زیادہ خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ میں بڑے ادب سے سیکولرازم کے پجاری نوجوان کالم نگار سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ قائد اعظم کو ”مولوی محمد علی جناح“ جیسا خطاب دے کر اور ان کے چہرے پر داڑھی لگانے جیسے تمسخر آمیز انداز اپنانے سے اجتناب کریں۔ اگر ”پیر زادہ“ صاحب کو مولویوں اور مولاناﺅں سے نفرت ہے تو انہیں اپنے دادا اور ان کے بھی باپ کا مذاق اڑانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن انہیں پوری قوم کے باپ محمد علی جناح کا اس انداز سے تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ کم از کم ہم لکھنے پڑھنے والوں کو ا تنا مہذب، شائستہ اور ذمہ دار ضرور ہونا چاہئےے کہ ہم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کا تذکرہ سنجیدگی کے ساتھ کریں۔ سنجیدگی کا مطلب، سنجیدگی ہی ہے اس سے مراد پھکڑپن، بے تکا انداز تحریر اور بے پرکی اڑانا ہرگز نہیں۔

ای پیپر دی نیشن