قلعہ روہتاس ضلع جہلم وطن عزیز کے گنتی کے چند بڑے اور عجوبہ روز گار قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ دینہ سے سات کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔ اسے فرید خان المعروف شیرشاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کر ایا تھا اسکا محل وقوع بلند وبالا چٹانوں پر فصلیں، کنگرے، بارہ دروازے، محلات، چبوترے، غلام گردشیں، سینکڑوں فٹ بلند سیڑھیاں، بزرگان دین کے مقابر اور تین باولیاں فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ انہی تین بڑی میں سے سب سے بڑی باولی عالمگیر شہرت کی حامل ہے اور قلعہ روہتاس میں آنے والے ملکی غیرملکی سیاح بے ساختہ اسکی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں، بچوں اور خواتین کیلئے اسکی ڈیڑھ سو سیڑھیاں بہت دلچسپی کا باعث ہیں اور وہ آ کر ان سیڑھیوں پر دوڑتے، لپکتے، انہیں پھلانگتے اور گنتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ اژدہام وہاں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے ٹوورز میں بڑھ جاتا ہے۔ نوائے وقت میگزین نے چند یوم قبل قلعہ روہتاس کا دورہ کیا اور اس نادر اور عجوبہ روزگار باولی کی حالت دیکھ کر ازحد دکھ ہوا۔ اس موقع پر کنزرویشن اسسٹنٹ قیصر شہزاد بھی موجود تھے۔ باولی جس بری طرح شکست وریخت کا شکار رہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کسی بھی لمحے زمین بوس ہو سکتی ہے۔ اس تاریخی باولی کا چشم دید حال بتانے سے قبل یہ بھی سن لیجئے کہ قلعہ روہتاس کا 2013-14ء کا فنڈ ابھی تک موصول نہیں ہوا اور یہاں آثار قدیمہ کے عملہ کو جو دس افراد پر مشتمل ہے۔ نو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی یہاں پراجیکٹ ڈائریکٹر (19 ویں گریڈ) کی سیٹ خالی ہے اور اسکا ایڈیشن چارج ڈپٹی ڈائریکٹر ملک مقصود کے پاس ہے۔اٹھارویں ترمیم کے تحت قلعہ روہتاس بھی وفاقی حکومت کی عملداری سے صوبائی حکومت کی دسترس میں آ گیا اور نو دس ماہ سے عملے کو تنخواہ نہ ملنے کے علاوہ بجلی‘پانی اور ٹیلی فون کے بل بھی اتنے طویل عرصہ سے یہ آفس کا عملہ خود ادا کر رہا ہے کیونکہ ان تینوں کے بغیر ان کا گزارہ ممکن نہیں۔ بڑی باولی سہیل گیٹ اور قلعہ موری گیٹ کے نزدیک واقع اور اسکی سیڑھیوں کی تعداد 148 ہے۔ باولی کی سیڑھیوں پر تین بلند وبالا محرابیں بنائی گئی ہیں جبکہ اسکی پہلی سیڑھی سے نیچے پانی کے ہول تک اسکی گہرائی تقریباً سو فٹ ہے۔ کنوئیں کی گول دیوار تقریباً آٹھ فٹ بلند ہے اور اسکی بنیادوں سے تقریباً چھ بالشت چونا اور پختہ میٹریل بالکل اتر چکا ہے اور کنویں کا منہ ننگا ہو چکا ہے اور اس سے متصل گڑھوں میں پانی کھڑا تھا جبکہ اس سے بھی توجہ طلب امر یہ ہے کہ بڑی باولی قلعہ روہتاس کے سب سے نچلے اور نشیبی علاقے میں بنائی گئی تھی۔ قلعہ روہتاس کی چٹانیں سطح زمین سے تین سو فٹ بلند ہیں اور یوں یہ بڑی باولی چٹانوں سے تین سو فٹ سے زائد نشیب میں واقع ہے اور اسکی چاروں جانب وسیع وعریض پلیٹ فارم بھی تھا جو اسے پانی کی دستبرد سے محفوظ رکھتا تھا۔ پانچ صدیوں میں موسمی تغیر وتبدیلی سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ امر انتہائی غورطلب ہے کہ یہاں کچھ عرصہ قبل تعینات پراجیکٹ ڈائریکٹر موہن لال انجینئر نے باولی کے کنوئیں کے گرد کھڈا مار کر مٹی نکالی تھی جس کے بعد انتہائی نشیب میں ہونے کے باعث تمام بارشی پانی کا رخ باولی کے دہانے کی جانب ہو گیا اور آج اتنے سال گزرنے کے باوجود آثار قدیمہ بین الاقوامی اہلیت کے حامل تاریخی ورثہ کی انمول نشانی کو بچانے کیلئے اسکے گرد مٹی، پتھر ڈال کر پلیٹ فارم تعمیر نہ کر سکا اور اس کے لمحہ لمحہ سسک سسک کر ختم ہونے کا منتظر رہا۔ حد تو یہ ہے کہ موہن لال انجینئر کے اس قابل گرفت اقدام کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ تو اس کے خلاف کارروائی ہوئی اور نہ ہی اس کے باولی کے گرد کھودے گئے گڑھوں کا تدارک کیا گیا جو سب سے ضروری اور فوری توجہ کا طلبگار تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق دنیا میں اپنی نوعیت کی اس منفرد باولی کو تباہی کے آخری دہانے پر پہنچانے کا مرتکب یہی موہن لال انجینئر آج کل اندرون سندھ کے تاریخی مقامات میں اسی طرح کے ’’کارنامے‘‘ انجام دے کر پاکستانی آثار قدیمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں سرگرم ہے اور محکمہ آثار قدیمہ نے حسب معمول اسی طرح مجرمانہ چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار کتنے سال سے نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں ، انکی آنکھ کھلنے کا نام نہیں لے رہی کہ انکی آنکھوں کے سامنے اسکی بنیادیں ننگی ہو گئیں۔ کنوئیں کے گردا گرد مٹی نکال کر گڑھے ڈال دیئے گئے اور اب ہر سال ان گڑھوں میں چند تگاریاں مٹی ڈال کر بڑی باولی کی قبر کی لیپائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ قلعہ روہتاس کی فصیلوں اور دیگر عمارات کی تعمیر بنیادوں کے بغیر قدرتی چٹانوں پر پتھر نصب کر کے ہوئی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بڑی باولی چٹانوں پر نہیں چنی گئی بلکہ اسکی بنیادیں سینکڑوں فٹ نیچے تک ہیں جو ایک اندھے کو بھی دکھائی دے سکتی ہیں اس کیلئے یہ جواز کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اسکی بنیادیں ریتلی چٹانوں پر ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر ایک حد تک درست ہو سکتی ہے کہ زمینی ساخت اور ریتلی چٹانیں بھی اس کیلئے نقصان کا موجب بن رہی ہیں۔
باولی کی کل سیڑھیاں 148 ہیں جبکہ 57 سیڑھیاں گزرنے کے بعد اوپننگ باولی کی حد شروع ہوتی ہے جس کے بعد مزید 91 سیڑھیاں اتر کر پانی کے لیول تک پہنچتے ہیں۔ یہ آخری نوے سیڑھیوں کے دونوں جانب بلند وبالا تقریباً سو فٹ بلند دیواروں کے مناظر انتہائی دل دہلانے اور تکلیف دہ ہیں اور یہ مناظر اوپننگ باولی کی بیس سیڑھیاں اترتے ہوئے دونوں جانب کی دیواروں سے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان بیس سیڑھیوں کے بعد سستانے کیلئے قدرے بڑا پلیٹ فارم ہے اس کے بعد اٹھارہ سیڑھیاں اور اسکا پلیٹ فارم بعدازاں انیس سیڑھیاں اور پلیٹ فارم اس کے بعد سولہ سیڑھیاں پلیٹ فارم اور آخر میں اٹھارہ سیڑھیاں پانی کے زیریں گول دہانے پر ختم ہو جاتی ہیں جہاں سے آپ اوپر نظر اٹھا کر دیکھیں تو سو فٹ کی زائد بلندی پر کنوئیں کا اندرونی بالائی سرکلر دکھائی دیتا ہے اور یہاں آ کر لگتا ہے کہ کی جیسے یہ سو فٹ سے زائد بلند کنوئیں کی شکستہ دیواریں یکلخت آپ پر آ گریں گی اور آپ سینکڑوں فٹ گہرے کنوئیں میں زندہ دفن ہو جائیں گے۔ کنوئیں کی اندرونی دیواریں بالائی زمینی گڑھوں اور کھڈوں کی وجہ سے کئی کئی گز تک تیزی سے گر رہی ہیں۔ نوائے وقت کے سامنے بھی زمینی گڑھوں کا پانی سو فٹ دیوار سے ہو کر نیچے کنوئیں میں گر رہا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ یہ بارشی پانی نہیں بلکہ برصغیر اور بین الاقوامی شہرت کے حامل عظیم سپہ سالار شیر شاہ سوری کی بے بس آنکھوں سے آنسو ٹپک کر اس کی عظیم اور یادگار باولی میں ٹپک رہے ہیں ۔ خوف کے باعث وہاںچند لمحوں سے زائد کھڑے رہنا دشوار تھا۔ باولی کی اندرونی دیواروں کے خوفناک کٹائو کا یہ منظر اوپننگ باولی یعنی نوے سیڑھیوں کے بعد شروع ہو جاتا ہے جبکہ گردشِ زمانہ کے ساتھ ،محکمہ آثار قدیمہ اور حکومتی غفلت کے نتیجہ میں یہ گھائو اور بھی لمبا، چوڑا اور گہرا ہو تا جا رہا ہے۔
باولی کا صرف وہی حصہ محفوظ رہ گیا ہے جسے برطانوی عہد میں پتلی اینٹوں کے گرد ٹیپ کی گئی ہے اور آج ڈیڑھ دو سال بعد بھی انگریز عہد کی ان اینٹوں نے باولی کو اندرونی طور پر سہارا دے کر اسکا وزن اٹھا رکھا ہے اور برطانوی عہد کا یہ کام محکمہ آثار قدیمہ کے منہ پر طمانچہ ہے کہ وہ چھ دہائیوں کے دوران اس باولی میں ایک بھی ایسی اینٹ نہیں لگا سکا۔
صوبائی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کو فوری طور پر ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور اس کوتاہی کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ رانا مشہود نے کچھ عرصہ قبل قلعہ روہتاس میں جیپ ریلی بھی منعقد کرائی تھی وہ یہاں تین چار مرتبہ وزٹ بھی کر چکے ہیں۔ انہیں قلعہ کے اس عظیم تاریخی ورثہ کی تباہی کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور اسکا فوری وزٹ کر کے اس کے الگ سے خصوصی بجٹ کا اعلان کرنا چاہیے۔ باولی کے منہ کے گرد کئی فٹ مٹی، بجری ڈال کر اسکا پختہ پلیٹ فارم بنایا جائے اور پانی کی نکاس کو اس کے دہانے اور گردونواح سے دور لے جایا جائے جبکہ اندرونی دیواروں کو برطانوی عہد کی طرز پر ٹیپ والی اینٹوں کے ساتھ سپورٹ دی جائے اور اس تمام کام کی نگرانی کیلئے بورڈ بھی تشکیل دیا جائے۔ ڈائریکٹر جنرل آریکالوجی عصمت طاہر نے نوائے وقت کی توجہ دلانے پر بڑی باولی کی صورتحال کے حوالے سے بتایا ابھی قلعہ روہتاس کو وفاق سے صوبے کے زیر کنٹرول آتے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، 236 ملین کا پراجیکٹ منظور ہوا ہے اور رقم سی ایم نے ریلز بھی کر دی ہے۔ فوری طور پر باولی کی کنزرویشن کا کام شروع کیا جائے گا ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملازمین کو تمام رقم اکٹھی مل جائے گی۔ ڈی سی او جہلم محمود الحسن کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ جو روٹین سے ہٹ کر بڑی باولی کا فوری جائزہ لے کر اسے محفوظ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی اور اس تمام صورتحال کو میں خود بھی مانیٹر کروں گی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ملک مقصود قلعہ روہتاس نے نوائے وقت کو بتایا کہ قلعہ روہتاس بغیر بنیادوں کے پہاڑوں کو قدرتی چٹانوں پر تعمیر ہوا ہے۔ یہ ریتلی چٹانیں ہیں۔ پانچ صدیوں سے بارش، موسمی تغمیرات اور صعوبتوں سے ریتلی چٹانیں شکست وریخت کا شکار ہو رہی ہیں۔ ریت بکھرنے سے پتھر اپنی جگہ چھوڑ رہے ہیں اور مختلف جگہوں سے دیواریں اور چھتیں بیٹھ رہی ہیں۔ مقصود ملک نے بتایا کہ ہم نے گزشتہ سال بھی باولی کے منہ کے گرد دائرے میں مٹی وغیرہ ڈلوائی تھی اور باولی سب سے نشیبی جگہ پر ہونے کے باعث بارشی پانی اس کے دہانے کے بلائی سرکل کے گرد نشیب میں جمع ہو کر نیچے تک گولائی میں تمام دیواروں سے رس رہا ہے جس سے باولی کی اندرونی دیواریں تباہی سے دوچار ہو کر جگہ جگہ سے خوفناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ چند سال قبل لاہور سے کیمسٹ لے جا کر اسکا ٹریٹمنٹ بھی ہوا تھا۔ مقصود ملک نے بتایا کہ اس کے دہانے کے گرد مٹی ڈال کر پلیٹ فارم کو اونچا کیا جائے گا۔ اس سال چھ ملین روپے مل چکے ہیں۔ مارچ کے آخر یا اپریل کے پہلے ہفتہ تک کام شروع ہو جائے گا لیکن باولی کو بچانے کیلئے اس کے نواح سے بارشی پانی کے نکاس کو بڑی نالی کے ذریعے دور لے جانا ہو گا تاکہ باولی میں پانی کا رسائو رک سکے۔
آرکیالوجی کنزرویٹر قلعہ روہتاس خالد سرور نے بڑی باولی کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس کا بڑا مسئلہ پانی کے نکاس کا ہے جس پر آپ نے بھی توجہ دلائی ہے۔ ابھی فوری طور پر اس کے تدراک کیلئے ابتدائی کام کیا جائے گا پانی کو باولی سے دور لیجانے کیلئے کم از کم دس بارہ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے گا۔ پی سی ون میں آئندہ سال قلعہ روہتاس کے فنڈ میں اس کے لئے خصوصی رقم رکھی جائے گی اور اس کی خصوصی طریقے سے مرمت کر کے اس نادر ورثے کو محفوظ کیا جائے گا۔