انگریزوں نے ہمیں غلام بنا کے رکھا۔ اس کے لئے دل میں ایک غبار سا ہے مگر جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو دیکھتا ہوں جس کے ساتھ میو ہسپتال ہے تو میرے دل میں ایک حیرت سی پیدا ہوتی ہے۔ انگریز کیسے لوگ تھے کہ اپنے غلام ملکوں میں بھی تعلیم اور صحت کے لئے کئی منصوبے ان کی یادگار ہیں۔ ہم نے آزادی کے بہت دنوں کے بعد میڈیکل کالجز بنائے۔ ہم انگریزوں کے نظام تعلیم کی بہت مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے مگر بڑے لوگ تو قیام پاکستان سے پہلے پیدا ہوئے۔ علامہ اقبال‘ قائداعظم‘ محترمہ فاطمہ جناح پاکستان بننے کے فوراً بعد کچھ لوگ نظر آتے ہیں مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ میرا موضوع نہیں ہے۔
ہم نے یہ کیا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بنا دیا۔ کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی بنا دیا۔ مجھے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پر تو کوئی اعتراض نہیں مگر یہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کیا ہے۔ یہ کالج بھی ہے اور یونیورسٹی بھی۔ یا یہ نہ کالج ہے نہ یونیورسٹی ہے۔ ہم نے آزادی کے بعد لاہور میں علامہ اقبال میڈیکل کالج بنایا۔ مادر ملت کے نام پر فاطمہ جناح میڈیکل کالج خواتین کے لئے بنایا۔ ملتان میں اس طرح کے ادارے کا نام نشتر میڈیکل کالج رکھا جو بہت اچھا ہے۔
ان اداروں کی طرف سے کوئی دعوت ہو تو میں ضرور جاتا ہوں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے مشاعرے مجھے بہت پسند ہیں۔ حیرت ہے ان دونوں طبی اداروں میں مشاعروں کے انچارج غیرشاعر نہیں شعر و ادب کا ذوق تھوڑا بہت ڈاکٹر ارشاد حسین اور ڈاکٹر راشد ضیاء میں ہو گا۔ دونوں گفتگو بڑی اچھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد مزاج کے شرمیلے ہیں مگر ڈاکٹر راشد ضیا زندگی کو ڈسکس کرتے ہوئے کبھی کبھی راز کی بات کر جاتے ہیں۔ دونوں ڈاکٹر کی حیثیت سے بہترین مانے جاتے ہیں۔ مزاج کے اعتبار سے بھی بہت اچھے ہیں کہ بیمار بھی آپ کو شفا کی دعا دیتے ہیں۔ دعا اور دوا میں بہت معمولی فرق ہے؟
ڈاکٹر ارشاد کنگ ایڈورڈ میں مشاعرہ کراتے ہیں جس میں شہر بھر کے بہت معروف شاعر شرکت کرتے ہیں۔ کالج کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ طالب علم شعرا ہمیشہ قابل ذکر ہوتے ہیں مگر پھر نجانے کہاں گم ہو جاتے ہیں۔ طالب علم بہت انجوائے کرتے ہیں۔ بھرپور حاضری ہوتی ہے۔ وہ بہت ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ کئی بار تو پتہ نہیں چلتا کہ وہ شاعروں کو داد دیتے ہیں یا ان کا علاج کر رہے ہیں۔ وہ بیمار شاعروں کو جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کچھ شاعروں کو مشاعروں کی بیماری لگی ہوئی ہے۔ مشاعرے میں پروفیسر ڈاکٹر بھی موجود ہوتے ہیں مگر انہوں نے کبھی طالب علموں کو کسی طرح منع نہیں کیا۔ آج کے دن سب کے لئے آزادی ہوتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے مزاح گو شاعر انور مسعود کے ساتھ ان کی شاعری حاضرین نے خود بھی اپنے آپ کو سنائی۔ اتنی بار سنی ہوئی چیزیں بھی کچھ یاد ہو گئی ہیں۔ البتہ اس بار برادرم زاہد فخری کو کچھ مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے لئے داد میں بے داد کا رنگ غالب ہو گیا اور ہوٹنگ کا گماں گزرنے لگا۔ ہوٹنگ تو طالب علموں کے اجتماعات میں ہوتی ہے مگر اسے آئوٹ آف کنٹرول نہ ہونے دیا جائے تو یہ سٹیج پر کھڑے شاعر کا کمال بن جاتا ہے۔
فرحت عباس شاہ‘ شاید واحد ہے جس کی گائیکی بھی شاعرانہ ہے۔ وہ بہت مزے سے شعر سناتا ہے۔ حماد نیازی کی شاعری بھی دلچسپی سے سنی گئی۔ سعداللہ شاہ نے بھی رنگ باندھا۔ ڈاکٹر تیمور حسن نابینا ہے مگر بے پناہ شاعر ہے۔ اس نے اندھیرے میں پی ایچ ڈی تک کر لی ہے۔ وہ دل کا اندھا نہیں ہے۔ اسے اتنی داد ملتی ہے کہ اسے مشاعرہ کا ڈاکو کہتے ہیں۔ واجد امیر‘ امجد اسلام امجد اور کئی دوسرے شاعروں نے کلام سنایا۔
ڈاکٹر ارشاد بہت سرگرمی سے محفل کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے کسی شاعر کو نہیں سمجھایا تو طالب علموں کو بھی نہیں سمجھایا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود بہت شاندار اور قابل ڈاکٹر ہیں۔ وہ مشاعرے میں موجود رہے۔ انہوں نے آخر میں جو تقریر کی اس میں شعر و ادب سے اپنی دلچسپیوں کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے برملا مگر بھاری دل سے کہا کہ میں اردو نہ پڑھ سکا اور اس میں میرے والدین کا زیادہ حصہ ہے۔ مگر وہ اب بھی اردو سیکھنا چاہتے تو مشکل نہیں ہے۔ ڈاکٹر ارشاد گاہے گاہے مشاعرے یونیورسٹی میں منعقد کراتے رہیں۔ کبھی کبھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے کسی دوست کو بلا لیں تاکہ اردو کے ساتھ پاکستانیت بھی پروفیسروں اور طالب علموں کے مزاج میں داخل ہوتی رہے۔
دوسرا بہت خوبصورت مشاعرہ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ہوا۔ یہ طالب علموں اور طالب علم شاعروں کا مشاعرہ ہوتا ہے۔ جہاں میں ضرور چلا جاتا ہوں۔ اچھی شاعرہ صوفیہ بیدار بھی تقریباً ہر مشاعرے میں موجود ہوتی ہے۔ وہ میری طرح ڈاکٹر راشد ضیاء کو بہت پسند کرتی ہے۔ بہت اچھے دل و دماغ والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت بھی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اس بار وہ نظر نہ آئے۔ آ کے چلے گئے ہوں گے۔ یا کہیں اس طرح تھے کہ مجھے نظر نہ آئے۔ پچھلی بار انہوں نے خود مجھے بلایا تھا اور میں نے ایک دن میں دو تقریبات میں حصہ لیا تھا۔ میڈیکل کالج میں اس طرح کی تقریبات اعلیٰ ذوق و شوق کی نشاندہی ہے۔
اس کالج کے نام کی وجہ سے مجھے ایک نسبت یہاں سے ہے۔ ڈاکٹر راشد ضیاء لٹریری سوسائٹی کو ہیڈ کرتے ہیں اور وہ میرے دوست ہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر اچھے ہیں یا انسان اچھے ہیں۔ میڈیکل کے بڑے اور سچے آدمی کو ایسا ہی ہونا چاہئے جو سچائی اور دلربائی کو ملا جلا دے۔ حیرت ہے کہ یہاں پڑھنے والے ہر طالب علم کو علامہ اقبال سے ایک نسبت خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اقبالین کہتے ہیں۔ اقبال کے شاہینوں کا ذکر محفلوں میں اس قدر ہوتا ہے کہ ہمیں ہر طرف شاہین اڑتا ہوا یا اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ عورتوں نے بھی اب اپنا نام شاہین رکھ لیا ہے۔ اقبال نے بھی کوئی تحقیق نہیں کی ہو گی کہ ان کی مراد شاہین سے مذکر ہے یا مونث ہے۔
سوسائٹی کے لوگ بے تکلفی سے ڈاکٹر پروفیسر راشد ضیاء کے پاس آ جا رہے تھے۔ مس نیلمہ‘ جناب گلنواز اور تحریم حیات ہر کام کڑی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ یہاں باہر کے بڑے بڑے شاعر نہ تھے۔ میں اور صوفیہ بیدار تھے اور ہم ہر دفعہ آ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمارے بارے میں طالب علم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم میں سے ہیں۔ مجھ سے ملنے ڈاکٹر سعید نیازی بھی آ گئے۔ وہ یہیں سے پڑھ کے گئے ہیں۔
یہاں جو طرح مصرعہ طالب علم شاعروں کو دیا گیا وہ علامہ اقبال کا تھا۔ یہاں شاعری گائی بھی گئی اور بہت اچھی طرح گائی گئی۔ وہ بھی کلام اقبال تھا۔ ہر طرف علامہ اقبال چھائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر راشد ضیاء سے گذارش ہے کہ وہ یہاں کچھ طالب علم کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے لے کے آئے تاکہ اقبال سے نسبتیں زیادہ اچھی طرح قائم ہو سکیں۔