اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کیس میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو فریق بننے کی اجازت دیتے ہوئے ان سے 2 ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے، جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کوئی خوش فہمی میں نہ رہے چیئرمین نیب کے حوالے سے فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، چیئرمین نیب کی تقرری پر عدالت آبزرویشن دے چکی ہے بہتر ہے کہ اپوزیشن لیڈر بھی پارٹی ہو تاکہ نظرثانی نہ کی جا سکے، حکومت اور اپوزیشن مل کر اگر غیرجانبدار شخص کا چنائو کر لیتی تو کسی کو کوئی اعتراض تو نہ ہوتا، بادی النظر میں اگر اس معاملے میں مشاورت ہوتی ہے تو اپوزیشن لیڈر سے وضاحت سے پوچھ کر فیصلہ دینگے اسی لئے بہتر ہے خورشید شاہ کو پہلے سن لیا جائے، بعد میں بھی انہیں سننا ہی پڑے گا۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئے کہ ملک میں کرپشن کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے قانون میں ترمیم کے ذریعے ہی اسے وزارت قانون کے تحت کیا گیا ہے۔ درخواست گزار محمود اختر نقوی نے موقف اختیار کیا کہ نیب چیئرمین کے تقرر میں نیب آرڈیننس کی خلاف ورزی کی گئی ہے تقرری میں مک مکا ہوا ہے اس پر جسٹس خلجی نے کہا کہ ایسا نہ کہیں یہ عوامی نمائندے ہیں۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آپ نے آغاز اگر ایسا کرنا ہے تو پھر آپ کو آگے کیسے سن سکتے ہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ خورشید شاہ کے بارے میں مناسب الفاظ استعمال کریں آپ جس طرح کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں ان پر اعتزاز احسن کو اعتراض ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ آخر آپ نے کسی کو تو ووٹ دیا ہوگا، اس پر محمود اختر نے کہا کہ میں یہ نہیں بتا سکتا اس کیس میں خورشید شاہ کو بھی فریق بنایا جائے یہی استدعا خورشید شاہ کی جانب سے اعتزاز احسن نے کی۔ اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ انہیں اس پر اعتراض نہیں ہے بے شک پارٹی بنا لیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک کیس میں چوہدری قمر زمان کے خلاف فیصلہ دیا۔ عدالت نے جس شخص کے خلاف فیصلہ دیا اسے چیئرمین نیب لگا دیا گیا جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ حامد خان جس کیس کا ذکر کررہے ہیں اسی کیس میں وفاقی ٹیکس محتسب رؤف چوہدری کے خلاف بھی فیصلہ آیا تھا تاہم عدالت نے ان کی تقرری کی توثیق کی تھی۔ کیس کے درخواست گزار چیئرمین نیب کی تقرری میں مک مکا کا لفظ استعمال کررہے ہیں، یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ان کی تقرری آئین کے مطابق ہوئی۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ عام انتخابات میں بہت سے اختیارات منتخب نمائندوں کو بھی تفویض کر دیئے ہیں، عدالت اگر اس طرح ہر شخص کا اعتراض سننے لگے تو ملک کے 18کروڑ عوام عدالت آ جائیں گے۔ وزارت قانون کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق قواعد میں ترمیم کی گئی تھیں جس پر جسٹس دوست محمد نے کہاکہ سرکاری ملازم کی تقرری کے لئے قواعد میں ترمیم کے لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی اجازت درکار ہوتی ہے، وہ کہاں ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاملہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا نہیں، لاء ڈویژن سے متعلق ہے۔