14 فروری 2015ءکو شروع ہونے والے عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کے مقابلے اپنے اختتام کو پہنچ گئے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے چیمپیئن کا تاج کس کے سر سجے گا اس بات کا فیصلہ کل میلبورن کرکٹ گراونڈ (ایم سی جی) میں دو میزبان ملکوں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ کے بعد ہوگا۔ آسٹریلیا کی ٹیم اس سے قبل چار مرتبہ میگا ایونٹ کا ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہے جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے۔ دونوں ٹیموں کا تعلق ورلڈ کپ کے ایک ہی گروپ اے سے ہے۔ افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو اپنے ہوم گراونڈ پر شکست سے دو چار کر رکھا ہے لہذا اب آسٹریلیا اپنے ہوم گراونڈ پر افتتاحی میچ میں ہونے والی شکست کا بدلہ چکانے کے لیے میدان میں اترے گا۔ کیوی ٹیم نے ٹورنامنٹ کےلیگ مرحلے سے لیکر ناک آوٹ مرحلہ کے کوارٹر فائنل اور سیمی فائنل میں ناقابل شکست رہی ہے جبکہ آسٹریلیا کی ٹیم کو لیگ مرحلے میں نیوزی لینڈ سے شکست کے علاوہ بنگلہ دیش کے خلاف اس کا میچ بارش کی نظر ہو گیا تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کرکٹ شائقین میں بڑی خوشی کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ان کے ملک میں ہونے والے ایونٹ کے فائنل تک دونوں میزبان ٹیموں نے کوالیفائی کیا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شروع سے دو روایتی حریف رہے ہیں جن کے درمیان ہونے والے مقابلوں کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین کرکٹ سٹیڈیم میں آتے ہیں۔ پہلی مرتبہ کرکٹ کی عالمی جنگ ٹورنامنٹ کے فائنل میں ان کا آمنا سامنا ہونے جا رہا ہے لہذا ایک اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے میگا ایونٹ کو دلچسپ اور کامیاب بنانے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی زیادہ تر وکٹوں کو بیٹنگ پیراڈائز بنایا تھا جس میں بڑی رنز سکور ہونے کے ساتھ باولرز کو بھی مدد ملتی رہی ہے۔ بیٹنگ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل نے ڈبل سنچری (215) کر کے عالمی کپ کی تاریخ رقم کی تو نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں 237 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔ ٹورنامنٹ میں تین مواقعوں پر ٹیموں نے چار سو سے زائد رنز کی اننگز کھیلی۔ آسٹریلیا نے ورلڈ کپ مقابلوں میں سب سے بڑی اننگز کھیلنے کا بھارتی ریکارڈ اپنے نام کیا۔ بھارت نے 2007ءکے عالمی ٹورنامنٹ میں ایسوسی ایٹ ممالک کی ٹیم برمودا کے خلاف پورٹ آف سپین میں 413 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔ آٹھ سال بعد آسٹریلیا نے عالمی کپ میں افغانستان کے خلاف 417 رنز سکور کر کے یہ ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ کی ٹیم جس کی قسمت انہیں اہم اور ناک آوٹ مرحلے میں دھوکہ دے جاتی ہے اس موتبہ بھی ایسا ہی ہوا اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوں سیمی فائنل میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست سے دوچار ہو کر ٹورنامنٹ سے آوٹ ہو گئی۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کو ایک مرتبہ پھر ڈک ورتھ لوئس قانون کا سامنا رہا جس کا فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوا۔ بہر کیف جنوبی افریقہ کی ٹیم نے ٹورنامنٹ میں آئر لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف چار سو کی اننگز اس ورلڈ کپ میں کھیل رکھی ہے۔ آئر لینڈ کے خلاف جنوبی افریقہ کا سکور 411 جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف 408 رنز رہا ہے۔ افریقہ کی ٹیم کو بڑے میچز کی چوکر ٹیم کا نام دیا گیا ہے 1992ءسے لیکر اب تک ہونے والے ٹورنامنٹس میں ان کی قسمت اہم میچز میں آ کر ساتھ چھوڑ جاتی رہی ہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کے کھلاڑی اور آفیشلز لیگ مرحلے کے تمام میچز کو فوکس کر کے کھیلتے ہیں جب ناک آوٹ مرحلے کا آغاز ہوتا ہے تو اس وقت تک کھلاڑیوں کا انجری لیول ختم ہو چکا ہوتا ہے بہر کیف جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ اس بارے میں ضرور غور کرئے گا کہ آیا کیا حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ ورلڈ چیمپیئن بنا جا سکے۔ جنوبی افریقہ کی طرح پاکستان، انگلینڈ، بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں بھی ٹائٹل جیتنے کا خواب لیکر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچی تھیں ان کا بھی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ہے۔ بھارت میں گذشتہ سات آٹھ سال سے کرکٹ کا جس طرح کا نظام بنایا گیا ہے اس کے پاس باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل مقابلے میں جس طرح شکست سے دوچار ہوئی ایسا لگ رہا تھا کہ بھارتی میڈیا کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لے گا لیکن راقم کو ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل موقع پر ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا کسی ایک صحافی نے اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کے بارے میں ایک جملہ تک نہیں بولا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے میڈیا نے دیار غیر میں بیٹھ کر اپنے ملک کی عزت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان میں میڈیا سمیت سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے میگا ایونٹ میں شرکت کرنے والی ٹیم کا جس طرح کے الزامات لگائے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ کسی اور ملک کے کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں انہیں جتنا تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا ہمیں اتنا ثواب ملے گا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹرز جو اپنے دور میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے تھے ملکی اور غیر ملکی میڈیا چینلز پر بیٹھ کو انہوں نے جس طرح کی تصویر کشی کر کے عوام کو تصویر کا ایک رخ دکھانے کی کوشش کی جبکہ حقیقت میں پاکستان کرکٹ گذشتہ چھ سال سے جن مسائل سے دو چار ہے ایسے میں کھلاڑیوں کو کسی بڑے ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا اور اچھی کارکردگی دکھانا کسی معجزے سے کام نہیں ہے۔ کپتان مصباح الحق نے گذشتہ چار سال سے پاکستان کرکٹ کو جس طرح سنبھالے رکھا ہے۔ ان کی رخصت کے بعد قومی ٹیم ایک مرتبہ پھر بحران سے دوچار ہوگی۔ کیونکہ مصباح الحق کے ساتھ ساتھ سینئر کھلاڑی شاہد خان آفریدی بھی ایک روز کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ سینئر کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کا لازمی فرق پڑتا ہے۔ کپتان مصباح الحق نے مشکل دور میں جس طرح قومی ٹیم کو لیکر چلے ہیں اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ویسے تو مصباح الحق نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی رپورٹ پیش کر دی ہوگی کہ مستقبل کو روشن بنانے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ مصباح الحق سمیت شاہد آفریدی نے پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس پر کئی سالوں سے تجربات ہی ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ہر سال ایک نیا ڈومیسٹک کرکٹ کا ”لالی پاپ“ دیکر نوجوان کرکٹرز کو کہا جاتا ہے کہ اگر اس کے مطابق آپ کی کارکردگی ہوگی تو قومی ٹیم میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستان کرکٹ کو اب ایک اچھے کپتان کی اشد ضرورت ہے جو ٹیم کو ایک وننگ کمبی نیشن میں ڈھال سکے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام نے بھی مشاورت شروع کر دی ہے لہذا ایسا فیصلہ کیا جائے جو ملک کی عزت کا باعث بنے۔ شاہد آفریدی یہ بات بار بار کہتے ہیں ہے جو بھی کپتان بنایا جائے اسے کم از کم ایک سال یا دو سال کے لیے بنایا جائے تاکہ اسے پتہ ہو کہ اس نے کیا حکمت عملی تیار کرنی ہے۔ آفریدی کی بات میں وزن ہے کیونکہ ہمارے ہاں اب اس بات پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان جو سفارتکار بھی رہ چکے ہیں امید ہے تمام حالات کا جائزہ لیکر کوئی اچھا فیصلہ کرینگے۔ شہریار خان کو کسی سابق کھلاڑی کی تنقید کی پروا کیے بغیر قومی ٹیم کا کپتان کسی نوجوان کھلاڑی کو بنانا چاہیے اور کم از کم اسے ایک سال کے لیے بنایا جائے۔ ٹیم کے بعض سنیئر کھلاڑی بھی کپتانی کے ایک مرتبہ پھر امید وار بن گئے ہیں۔ یونس خان جنہوں نے ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہنے کا ابھی اعلان نہیں کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ان سے مشاورت کر کے اگر انہوں نے ایک ڈیڑھ سال کرکٹ کھیلنی ہے تو انہیں کپتان بنا کر ان کے ساتھ کسی جونیئر کھلاڑی کو نائب کپتان کے طور پر تیار کیا جائے۔ جونیئر کھلاڑیوں میں ابھی کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ قومی ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ امید ہے کہ کرکٹ بورڈ اس سلسلہ میں اچھا فیصلہ ہی کرئے گا۔
عالمی ٹورنامنٹ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے ٹریک ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں آسٹریلیا کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 126 ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے 85 میچز میں آسٹریلیا اور 35 میچز میں نیوزی لینڈ نے کامیابی حاصل کر رکھی ہے جبکہ 6 میچز بے نتیجہ رہے ہیں۔ ورلڈ کپ میں کے مقابلوں میں آسٹریلا کو نیوزی لینڈ کے خلاف برتری حاصل ہے۔ دونوں ٹیموں کا ورلڈ کپ میں 9 مرتبہ آمنا سامنا ہو چکا ہے جس میں سے 6 میں آسٹریلیا اور تین میں میچز میں کیوی ٹیم کامیابی اپنے نام کر سکی ہے۔ دونوں ٹیموں میں کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے والے کھلاڑی موجود ہیں توقع کی جا رہی ہے کہ شائقین کرکٹ کو فائنل میں اچھا مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔