نیب افسروں نے گند ڈالا ہوا ہے‘کسی کو برطرف نہیں کیا گیا:جسٹس جواد

اسلام آباد( صباح نےوز)سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے مقدمات نہ نمٹائے جانے کے لیے مقدمات اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت میں نیب کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود نیب حکام اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔عدالت نے نیب حکام کو متنبہ کیا ہے کہ اگر عدالتی احکام عدولی جاری رہی تو چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔دریں اثناءنیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ نیب کی جانب سے ماضی میں کوتاہیاں ہوئی ہیں جبکہ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ 14 جنوری کو نیب میں موجودایسے افسروں و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا جو غیر قانونی اقدامات میں ملوث تھے لیکن ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا عدالت نے نیب کو حکم دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ پیش کریں جس میں نیب کے کرپٹ افسروں و اہلکاروں کے خلاف 2010ءسے اب تک لیے گئے ایکشن کے اعداد وشمار بتائے جائیں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب کا یہی کام رہ گیا ہے کہ لوگوں کوزچ کرے۔عدالت کے احکامات کو نہیں مانا جا رہا اس لیے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں اس موقع پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ چیئرمین نیب نے ستمبر 2013ءمیں تقرر کے بعد ایک اہم اجلاس بلایا جس میں مقدمات جلد نمٹانے اور تحقیقات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے جس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کیا چیئرمین نیب یہ انتظار کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کوئی حکم دے تو انہوں نے کام کرنا ہے۔عدالت نیب کو بڑی عزت دینا چاہتی ہے لیکن اگر کوئی عزت نہ لینا چاہے تو ہم زبردستی تو نہیں دیں گے نیب کی رپورٹ میں صرف لفاظی کی گئی ہے ہمیں چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس دینا پڑے گا کیونکہ یہ بنیادی طور پر گورننس کا معاملہ ہے نیب کیخلاف دائر ان مقدمات میں الزام ہے کہ نیب کے لوگ بے ایمان اور کرپٹ ہیں۔کوئی پیسے لے کر آسٹریلیا چلا جاتا ہے کوئی آسٹریا اور کوئی کہیں چلا جاتا ہے، یہاں ماڈل ایان علی کوگرفتار کیا گیا ہے نیب کی تھانیداری نہیں چلے گی۔ عدالت کے سامنے آنے والے سینکڑوں مقدمات میں 90 فیصد مقدمات میں نیب کی گڑ بڑ سامنے آ جاتی ہے۔ اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ اب تک نیب کے 58 افسروں کے خلاف محکمانہ کاروائی کی گئی ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ان میں سے کتنوں کو عہدوں سے برطرف کیا گیا تو پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کسی کو بھی عہدے سے ہٹایا نہیں گیا جواد ایس خواجہ نے کہا کہ غلط کام کرنے والوں کو ترقیاں دی جاتی ہیں نیب نے ماضی میں بہت سی حرکتیں کی ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا نیب کے اندر بیٹھ کر غلط کام کرنے والے کسی ایک افسر کے خلاف ایکشن ہو گا تو مستقبل میں کوئی خرابی نہیں ہو گی نیب اور سپریم کورٹ کا ایک ہی ہدف ہے کہ معاشرے سے کرپشن ختم ہو۔ سمجھا جاتا ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہیں قوم نے ہمیں آئین کے تحت اس منصب پر بٹھایا ہے ہم کسی کے مرہون منت نہیں ہیں نہ کسی کو اس حوالے سے غلط فہمی ہونی چاہیے۔ یہ عوام کی خواہش ہے کہ ملک میں آزاد عدلیہ ہو۔ نیب کے ڈی جی، ڈائریکٹرز اور اسٹنٹ ڈائریکٹرز نے گند ڈالا ہوا ہے لیکن کسی کو عہدے سے برطرف نہیں کیاگیا اور حکم عدولی کرنے والوں کو ترقی بھی دی گئی ہو گی۔ عدالت کا اپنے حکم میں کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ نیب کے اندر ہونے والے غلط اقدامات کو چیک نہیں کیا جاتا یہ رپورٹ غیر تسلی بخش ہے۔ عدالت کوتعجب ہے کہ ستمبر 2014ءمیں کیے گئے نیب کے اپنے فیصلہ پر بھی عمل نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے کرپٹ افسروں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دینے کے بعد اس پر عملدرآمد کے لیے دو بار یاد دہانی بھی کرائی مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی عدالت نے نوٹ کیا کہ نیب سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔
جسٹس جواد

ای پیپر دی نیشن