نیویارک (نمائندہ خصوصی+ اے ایف پی) افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے محتاط طور پر پُرامید ہیں۔ کونسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں محتاط طور پر پُرامید ہوں کہ ہم نے بنیادی انتقال اقتدار کا عمل شروع کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات پاکستان افغانستان تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں بتائی۔ اپنی کوششوں کو ملک میں درپیش تنقید کے باوجود انہوں نے اپنی پالیسی کو امن کے لئے اہم اور کلیدی پالیسی قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک 13سالہ لڑائی کے خاتمے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو افغان طالبان کے لئے حمایت روکنے میں اہم اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے پشاور کے سکول میں حملے کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردوں کو کوئی پاسپورٹ چاہئے نہ ہی وہ قومیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان اچھے تعلقات کے قیام کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی محفوظ جگہ کے بغیر طویل عرصے تک بغاوت ناممکن ہے۔ جب یہ مقدس جگہ ختم ہوتی ہے تو اس سے امن نکلتا ہے۔ انہوں نے پشاور کے سکول میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ دونوں ممالک کو قریب تر لایا۔ اس سے قبل پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے محتاط پُرامید ہیں تاہم امن کے فروغ کیلئے طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کے ساتھ ان بنیادی مسائل کی وضاحت کردی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ کئی سال سے تعلقات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ تیرہ سال سے افغانستان کے ساتھ جارحیت کے حوالے سے غیر واضح ریاست بنا ہوا ہے اور خوش قسمتی ہے کہ پاکستان خود بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے اب دونوں ملک اس جارحیت کو مل کر ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ہمیں خوشحالی اور استحکام کیلئے علاقائی سطح پر نمٹنا ہوگا بصورت دیگر ہم سب ڈوب جائیں گے۔ انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ہم سب اتنے دانشمند ہیں کہ ڈوبنے کے بجائے سب مل کر تیر سکیں۔ دریں اثناء افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے حربے کے طور پر استعمال نہ کرے تو دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مواقع کے روشن امکانات ہیں، پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں جانب سے مثبت پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک، ہیریٹج فائونڈیشن میں خطاب اور سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تبدیلی آئی ہے۔ ہمیں صرف ایک دہشت گردی کا چیلج درپیش ہے۔ اس کے مقابلے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے امکانات بہت زیادہ ہیں، جس سے پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔ لامحدود مخلصانہ پارٹنر شپ اور تعاون پر امریکی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا کہ امریکہ کی مدد سے افغان حکومت آج اپنے پیروں پر کھڑی ہے، آئندہ 10 برس میں یہ خود انحصاری کی منزل حاصل کرلے گی۔ افغان چیف ایگزیکٹو کو اس موقع پر غیرمعیاری حکومت، کرپشن، عدلیہ کی غیر فعالیت اور انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ کرپشن پر قابو پانے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان سے بات چیت نہیں ہو رہی۔ اگر طالبان تشدد ترک کر دیں، اسلحہ پھینک دیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کریں تو ان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس نظریئے کو مسترد کیا کہ افغانستان میں داعش بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ عوام کو طالبان حکومت کا بدترین تجربہ ہے۔ اس لئے طالبان افغان حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ عبداللہ عبداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ عبداللہ عبداللہ نے امریکی حکام سے ملاقاتوں اور ان میں ہونے والے بات چیت کواہم اور نتیجہ خیز قرار دیا۔ انہوں نے افغانستان میں سالِ رواں کے اختتام تک 9800 امریکی فوجی تعینات رکھنے کے صدر بارک اوباما کے فیصلے کو بھی سراہا۔