اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) ایرانی صدر کے دو روزہ دورہ پاکستان کی قدرے تاخیر سے منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق پاکستان نے نامعلوم تعداد میں ایرانی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو بھی گرفتار کررکھا ہے جنہیں پاکستان کے قومی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور غیرقانونی طور پاکستان کے اندر داخل ہونے کے الزام میں پکڑا گیا۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے وزیراعظم نوازشریف، صدر ممنون حسین اور ایرانی وزیر داخلہ نے چودھری نثار علی خان کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران ان اہلکاروں کو رہا کرنے کی درخواست کی جس کا پاکستان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مذکورہ ایرانی اہلکاروں کی گزشتہ کئی ماہ کے دوران کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ پاکستان نے باہمی تعلقات کی ساکھ قائم رکھنے کی خاطر اس کا اعلان نہیں کیا لیکن ایرانی حکومت کو گرفتاریوں سے آگاہ کیا جاتا رہا۔ یرانی صدر کے دورہ پاکستان اور ان کی ملاقاتوں کی تفصیلات سے آگاہ دو مستند ذرائع نے مذکورہ معلومات کی تصدیق کرتے ہوئے اس تاثر کی بھی تائید کی کہ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے ڈاکٹر حسن روحانی کا ائرپورٹ پر خود خیرمقدم کیا اور صدر ممنون حسین نے انہیں الوداع کہا۔ تاہم آداب میزبانی اور شائستگی کی تمام روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی پاکستان کی طرف سے نہ صرف ایرانی وفد کیلئے غیرمعمولی تپاک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا بلکہ توانائی کے شعبہ سمیت ایران کی طرف سے تعاون کی اہم پیشکشوں کا فوری جواب نہیں دیا۔ اس ذریعے کے مطابق ایران کی سلامتی کے تحفظ کیلئے پاکستان کے عمدہ تعاون کے باوجود پاکستان کو مثبت جواب نہیں مل رہا تھا۔ پاکستان گزشتہ ڈیڑھ برس سے براہ راست یا بالواسطہ رابطوں کے ذریعہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ جنرل راحیل نے ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران اگرچہ یہ معاملہ اٹھایا لیکن اعلیٰ سطح کے دو طرفہ روابط کے دوران پہلے بھی یہ بات ہوتی رہی لیکن پاکستان کی شکایات کا ازلہ نہ ہونے کے بعد اسلام آباد میں یہ طے کیا گیا کہ دوطرفہ تعلقات کو بہترین سطح پر رکھنے کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے ایران سے کھل کر باور کر ایا جائے کہ اس کی سرزمین سے بھارتی کارروائیاں پاکستان اور ایران کے تعلقات پر اب منفی انداز میںاثر انداز ہو رہی ہیں۔ پاکستانی شکایات کے ازالے کے بعد ہی ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس ذریعے کے مطابق ایرانی صدر نے پاکستان کو بجلی کی فراہمی ایک ہزار میگاواٹ سے بڑھا کور تین ہزار میگا واٹ کرنے کی پیشکش کی لیکن پاکستان نے فوری جواب نہیں دیا۔ ایرانی صدر نے اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے دوران کہا کہ سرحدی علاقہ کو پاک ایران تجارت کا مرکز بنایا جائے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب دونوں ملکوںکی سرحد محفوظ ہو جس کے جواب میں انہیں پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچستان میںشورش کے باوجود پاکستان نے حالات کو بہتر بنایا ہے۔ ایران بھی اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اس ضمن میں ایرانی تجاویز پر پاکستان غور کرے گا۔ پاکستان کی طرف سے خطہ میں استحکام کیلئے مسلہ کشمیر کے پرامن حل کا ذکر کیا گیا جب کہ ایرانی صدر نے اس تنازعہ کے ذکر سے اجتناب کرتے ہوئے یمن، شام ،عراق اور افغانستان پر توجہ مرکوز رکھی۔ حسن روحانی سلامتی و معاشی تعاون کے حوالے سے تیاری کرکے آئے تھے مگر بھارتی جاسوس کی گرفتاری نے منظرنامہ بدل دیا۔