لاہور (احسان شوکت سے) گلشن اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے کی نوعیت ماضی میں ہونے والے دھماکوں سے مختلف تھی۔ دہشت گردوں نے بال بیرنگ، کیلوں، نٹ بولٹ اور لوہے کے ٹکڑوں کی بجائے دھماکہ خیز مواد کا زیادہ استعمال کیا۔ دھماکے سے خود کش حملہ آور کا جسم بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی بجائے محفوظ اور قابل شناخت رہا جبکہ دھماکے والی جگہ پر گڑھا بھی نہیں پڑا۔ ذرائع کے مطابق اس دھماکے میں دشمن ملک بھارت کی ایجنسی ’’را‘‘ کی شمولیت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکا ہے۔ زیادہ نقصان کیلئے دھماکہ خیز مواد اونچائی پر نصب کیا گیا، علاقے میں پہلے بھی دہشت گردی ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ’’را‘‘ کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائی اور دھماکوں میں نٹ بولٹ، بال بیرونگ اور لوہے کے ٹکڑوں کی بجائے صرف دھماکہ خیز مواد استعمال کیا جاتا تھا۔ دھماکے میں بال بیرنگ انتہائی کم تعداد میں استعمال کیے گئے اور خطرناک دھماکہ خیز مواد کا زیادہ استعمال کیا گیا جس وجہ سے اس کارروائی کے تانے بانے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ملتے ہیں۔ حساس اداروں نے اس پہلو پر بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
را/ تحقیقات
لاہور (میاں علی افضل) گلشن اقبال پارک میںہونے والا دھماکہ ماضی میں ہونیوالے دھماکوں سے مختلف نوعیت کا تھا، زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کیلئے دھماکہ منفرد طریقے سے کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بال بیرنگ استعمال نہیں کئے گئے بلکہ دھماکے میں 20 سے 25 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔ دھماکہ خیز مواد پارک میں موجود جھولے کے قریب نصب تھا اور ملک دشمن عناصر کا نشانہ اس بار بھی بچے ہی تھے۔ دھماکہ خیز مواد زمین سے 6 سے 8 فٹ اونچائی پر نصب کیا گیا تاکہ زمین پر گڑھا پڑنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ ارد گرد موجود افراد کونقصان پہنچ سکے۔ پارک میں رش ہوتے ہی الیکٹریکل ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ کر دیا گیا۔ گذشتہ روز دھماکے سے ہونیوالی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد ماضی میں ہونیوالے خود کش دھماکوں سے کہیں زیادہ ہے جو اس دھماکے کے منفرد ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ ناقص سکیورٹی کے باعث دھماکہ خیز مواد پارک کے اندر پہنچا اور اسے باآسانی نصب بھی کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مسلسل ناقص سکیورٹی کے باعث گلشن اقبال پارک کا انتحاب کیا گیا کیونکہ چند ماہ قبل بھی اقبال ٹائون کے علاقہ میں ہی ناکے پر پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے قتل کرنے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات ہوئے ہیں جنہیں پولیس کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔