نیب غیرقانونی بھرتیاں: صدر،وزیراعظم کو قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کریں گے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نیب میں غیرقانونی بھرتیوں سے متعلق کیس پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ وزیراعظم کو بھی خلاف قانون بھرتی کا اختیار نہیں۔ صدر اور وزیراعظم کو قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا وزیراعظم کا حکم قانون سے بڑھ کر ہے۔ میرٹ اور پالیسیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ وکیل نیب خواجہ حارث نے کہا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ سے متفق ہیں‘ کیسز کو ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے۔ جن لوگوں کی انڈیکشن ہوئی ہے ان کے 629 کیسز ہیں‘ ایک سو ایک کیسز میں قواعد کی خلاف ورزی پائی گئی۔ نیب کی ڈائریکٹر جنرل عالیہ رشید کو اس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ جمالی کے حکم پر نیب میں لگایا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا صدر اور وزیراعظم کو قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کس شق کے تحت احکامات دیئے گئے؟ کیا وزیراعظم کا حکم قانون سے بڑھ کر ہے؟ آپ وزیراعظم کو پبلک سرونٹ سمجھیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کے تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترنے والے 9 افسران کو ریٹائر ہونے کی تجویز دیتے ہیں۔ عدالت نے حکم دیدیا تو وہ افسران ریٹائرمنٹ کے فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ چیئرمین نیب ان 9 افسران کو دفتر بلا کر عدالتی آپشن سے آگاہ کریں۔ عدالت نے نیب کی ڈائریکٹر عالیہ رشید کیلئے سپورٹس سیل بنانے کا آپشن دیدیا۔ چیئرمین نیب سپورٹس سیل بنائیں‘ انہیں وہاں بھیجیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کو نیب میں بھرتی کر کے ادارے کو تباہ کر دیا گیا۔ نیب کی جو آج حالت ہے اس کی وجہ کم تعلیم یافتہ افسران ہیں۔ اگر اشتہار دیا ہوتا تو آج قابل لوگ نیب میں نوکری کر رہے ہوتے۔ آج منگل کو کیس کی سماعت مکمل کر کے بدھ کو فیصلہ سنائیں گے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ کیس میں نیب نے اپنا تحریری جواب داخل کروا دیا جس میں کہا گیا کہ 629 تقرریاں ہوئیں‘ ترقی کے بعد 133تقرریاں قواعد کے برعکس تھیں‘2013ءتک 1ہزار 719 تقرریاں ہوئیں‘ 210 قواعد کے برعکس تھیں‘ ڈیپوٹیشن پر395میں سے9 افسران قواعد و ضوابط کے برعکس تعینات کئے گئے‘ نیب میں32 لوگوں کو ضم کیا گیا‘ 20 قواعد و ضوابط کیخلاف تھے‘ 48 تقرریاں قواعد وضوابط کے مطابق نہیں‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے101تقرریوں کو قواعد وضوابط کیخلاف قرار دیا تھا‘ 39کیسز میں غلط اشتہار دیا گیا‘ مطلوبہ اہلیت و قابلیت کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ جواب میں مزید کہا گیا 156 افسران سے متعلق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہیں‘51 افسر ریٹائر ہوچکے ہیں‘9 چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے عالیہ رشید نامی خاتون کو نیب میں ڈائریکٹر آگاہی مہم تعینات کرنے پر شدید برہمی کا اظہارکیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے شعبہ سپورٹس سے تعلق رکھنے والی عالیہ رشید کو نیب میں ڈائریکٹر کیوں لگایا گیا۔ وکیل صفائی نے کہا عالیہ رشید کو 2003 ءمیں وزیراعظم کی ہدایات پر بھرتی کیا گیا۔ اس پر عدالت نے پوچھا اس وقت وزیراعظم کون تھا‘ وکیل صفائی نے کہا 2003ءمیں ظفراللہ جمالی وزیراعظم تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کیا اس وقت جمہوری دور تھا یا مارشل لا تھا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کیا وزیراعظم قانون سے بالاتر ہے‘ بھرتی وزیراعظم کرے یا صدر قانون کے مطابق ہونی چاہئے‘ ایک کیس میں بھارت سے کبڈی میچ جیتنے والے پولیس اہلکار کو ترقی دی گئی‘ شکر ہے کبڈی کے مزید میچ نہیں ہوئے ورنہ پولیس اہلکار آئی جی بن جاتا‘ ہم نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھرتیوں کو فارغ کردیا تھا‘ وزیراعظم عوامی نوکر ہوتا ہے‘ سپورٹس مین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے لیکن اسے نیب میں بھرتی کرنا غلط ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا وہ شخص کیسے نیب میں بھرتی ہو سکتا ہے جو تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترتا ہو؟ وزیر اعظم اور صدر کو قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے ‘کیا وزیر اعظم کا حکم قانون سے بڑھ کر ہے؟ وزیر اعظم کو عوامی نوکر سمجھیں‘ وزیراعظم کو بھی خلاف قانون بھرتی کرنے کا اختیار نہیں‘ اگر کسی کی مہارت کھیل کے شعبے میں ہے اُسے اٹھا کر ڈی جی نیب لگانے کا کیا جواز ہے‘ نیب کے 9 تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترنے والے افسران کو ریٹائر ہونے کی تجویز دیتے ہیں‘ اگر عدالت نے حکم دے دیا تو وہ افسران ریٹائرمنٹ کے فوائد سے محروم ہو جائیں گے‘ چیئرمین نیب ان 9 افسران کو دفتر بلا کر عدالتی آپشن سے آگاہ کریں‘ کم تعلیم یافتہ کو نیب میں بھرتی کرکے ادارے کو تباہ کردیا گیا‘ اگر قانون کے مطابق بھرتیاں ہوتیں تو آج قابل لوگ نیب میں نوکری کر رہے ہوتے۔
نیب بھرتیاں کیس

ای پیپر دی نیشن