ایرانی علماء و اسلامی عسکری اتحاد کا وجود مسعود

ہم بہت خوش ہیں کہ ایرانی سنی علماء کرام اور ایرانی صدر حسن روحانی کے مابین بہت عمدہ تعلقات کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ ’’خیرکشید‘‘ کی خبر ہے۔ امسال جو حج انتظامات کا جائزہ لیا گیا تھا اس کی صدارت خود شاہ سلمان نے کی تھی اور ایرانی حجاج کے لئے ’’کوٹہ‘‘ کی اجازت خود شاہ سلمان نے عطاء کی تھی۔ ایرانی صدر حسن روحانی کی مدبرانہ روش اصل میں صدر ڈاکٹر خاتمی اور رفسنجانی عہد کی اس کوشش اور مثبت مفاہمت کی بازگشت ہے جو انہوں نے سعودی شاہ عبداللہ کی طرف سے شیعہ کو بالمعوم اور ایران کو بالخصوص پیش کر کے اتحاد امت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ ماضی میں صدر روحانی اسی خاتمی قافلہ سیاست کے ہمرکاب رہے ہیں۔ تازہ منظر نامہ اب کچھ یوں ہے کہ شاہ سلمان کے مشرق بعید ممالک (جاپان ، چین، مالدیپ) کے ساتھ اسی خطے کے اہم ترین مسلمان ممالک (انڈونیشیا و ملائشیا و برونائی) اس طویل تاریخی دورے کے مثبت تبدیلی لاتے اثرات کے ساتھ شاہ سلمان آل سعود کے ساتھ سرگرمی سے ہمرکاب سیاست و رفاقت ہو گئے ہیں۔ یوں اسلامی سعودی عسکری اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 39 سے زیادہ بلکہ 41 ہو گئی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد کی پذیرائی ’’ایران مخالفت‘‘ کی بجائے دہشت گردی، انتہاء پسندی، غلو کو کچلنے کی پذیرائی ہو رہی ہے جبکہ تازہ اعتراف کے ساتھ ہمارے وزیر دفاع نے بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کو جنرل راحیل شریف کے سعودی اتحاد میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ سعودی سفیر جن سے ہماری الوداعی ملاقات گذشتہ جمعہ کو ہوئی نے خواہش ظاہر کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی عسکری اتحاد میں دیکھنا سعودی خواہش ہے۔ اگرچہ خواجہ آصف کے بیان کے بعد جنرل عبدالقادر بلوچ نے اس اتحاد میں شامل ہونے پر جنرل راحیل شریف کے ’’متنازعہ‘‘ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے مگر ہم جنرل راحیل کے حوالے خود متنازعہ ہونے والے جنرل بلوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میں جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی اصل بات تو شاہ عبداللہ عہد کے اور پھر شاہ سلمان کے دوبارہ پاک سعودی دفاعی معاہدوں کا نتیجہ ہے۔ جبکہ سعودی عسکری تعلقات تو 1962ء سے قائم ہیں۔ جب یمن بارڈر پر سعودی دفاع میں پاکستانی عسکری مدد اور مشوروں نے سعودی عرب کا تحفظ و دفاع کیا تھا۔ معاملہ صرف اتنا ساہے کہ 1962ء میں شاہ فیصل کے عہد میں مصری صدر جمال عبدالناصر کمیونسٹ نظریات کے حامل، کمیونسٹ روس کے اتحادی تھے یمن کو شیعہ زیدی بادشاہت کے خاتمے سے سعودی اتحاد سے سعودی مخالف بنانے پر کمربستہ تھے۔ الحدیدہ تو آج حوثی اقلیتی یمنیوں کی بغاوت کا ہیڈ کوارٹر ہے جس کا حال ہی میں اقوام متحدہ وفد نے دورہ کر کے دہشت گردی اور بغاوت سے اس علاقے کو پاک کرنے کا عندیہ دیا تھا اور سعودی جنرل العسیری نے اس اقوام متحدہ کوشش و ارادے کی تائید کی ہے۔ چونکہ اس زمانے میں مصرف ’’سنی‘‘ جمال عبدالناصر یمن میں جنگ کے ذریعے تبدیلی لا رہا تھا تو پاکستان میں اس طرف سیاسی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور جو ’’ہوئی‘‘ وہ حکومت پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی عسکری حمایت و مدد کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی۔ معاملات اب ایرانی انقلابی رہبر علی خامنائی اور معاشی و سیاسی معاملات و برآمدگی انقلاب کا سرگرم عمل کرنے والے پاسداران انقلاب کے پاس ہے اور پاکستان میں اس معاملے کو کچھ اقلیتی اذہان شیعہ مخالفت تصور کر کے مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں حالانکہ حقیقت تو اس کے برعکس ہے کہ پاکستان و سعودی عسکری اتحاد تو 1962ء سے بدستور موجود ہے اور جنرل راحیل کے حوالے سے حکومت کا تحریری طور پر سعودی حکومت کو آگاہ کرنا کہ اسے جنرل راحیل کی شمولیت پر اعتراض نہیں عملاً 1962ء کا معاملہ دوبارہ ظہور پذیر ہونا ہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں جنرل راحیل شریف کے ذریعے پاکستان ایرانی سنی علماء کی طرح ایران و سعودی عرب میں پہلے قرب پھر مناجت اور پھر وہی دوستی بنوانے کا متمنی ہے جو شاہ فیصل اور رضا شاہ پہلوی عہد میں تھی۔ ہم اس امید کے ساتھ جنرل راحیل کی شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ اس عمل سے پاکستانی جنرل کے ذریعے جہاں دہشت گردی، انتہا پسندی، غلوکا خاتمہ ممکن ہو گا وہاں پاکستانی فوج کو ’’اسلامی ناٹو‘‘ میں اہم مقام ملنے جا رہا ہے جس سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہو گی انشاء اللہ لہٰذا اسلامی ناٹو کا وجود، جنرل راحیل کے ذریعے پاکستانی شرکت منفی نہیں، نہ ہی ایرانی و شیعہ مخالف ہو گا نہ ہی منفی بنے گا بلکہ امت مسلمہ کے لئے خود ایران کے لئے بھی ’’خیر کثیر‘‘ ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ ایرانی سنی علماء کی قیادت امام و خطیب مولوی عبدالحمید اسماعیل ہیں جو پہلے ہی صدر روحانی کی ایرانی بلوچوں سے مفاہمت میں عملی مدد کر چکے ہیں۔ وہ سعودی ایرانی مفاہمت کے اسی طرح کے داعی ہیں جیسے اصلاح کار سیاسی نابغہ ڈاکٹر رفسنجانی رہے تھے۔ آخر میں مدینہ منورہ کے حوالے سے دلچسپ خبر سعودی عرب میں شیعہ موجود ہیں۔ ریاض ریجن میں بھی۔ مدینہ منورہ میں جب مکہ مکرمہ سے داخل ہوتے ہیں تو النخاولۃ (واحد نخاولی) کا علاقہ ہے مسجد نبوی سے آدھا ، پون کلو میٹر فاصلہ یہ مدینہ منورہ میں فوڈ سٹریٹ ہے۔ سری، کباب، دنبہ پلائو خاص پکوان ہیں۔ عربوں کی یہ مرغوب سوغات ہے۔ سعودی عرب کے قیام سے یہاں پر سعودی و مدنی شیعہ آباد ہیں۔ فوڈ سٹریٹ عملاً مدنی شیعہ ریسٹورنٹس ہیں جو سعودی حکومت کی مدد سے آزادانہ ماحول میں کاروباری مرکز ہے۔ سعودی عرب اپنے شیعہ کا بھرپور دفاع و حفاظت کرتاہے۔ سعودی حکومت اپنے شیعہ کی مکمل حفاظت کرتی ہے۔ البتہ پہلے القاعدہ اور اب داعش جہاں سعودی حکومت کی دشمن ہے وہاں شیعہ سعودیوں کی بھی۔ حیرت ہے داعش ایران دشمن ہرگز نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن