ملک بھر میں اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں اچانک اور غیرمعمولی اضافہ ہوگیا جس کے باعث روزمرہ استعمال کی اشیاءغریب عوام کی پہنچ سے باہر نکل گئیں جبکہ آسمان سے باتیں کرتے نرخوں کے باعث مہنگائی کا عفریت بے قابو ہو کر عوام کو کچلنے اور نگلنے کیلئے بے تاب نظر آتا ہے۔ میڈیا رپورٹس اور نوائے وقت سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز اتوار بازاروں میں بھی مہنگائی کے اثرات غالب رہے اور وہاں پھلوں اور سبزیوں کی آسمان تک پہنچنے والی قیمتوں کے ساتھ ساتھ گلے سڑے پھل بھی فروخت کئے جاتے رہے جبکہ متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے عوام کے ساتھ لوٹ مار کا دھندہ کرنیوالے ناجائز منافع خور حضرات کیخلاف کسی قسم کا ایکشن لینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی۔ اس وقت روزمرہ استعمال کی اشیاءمیں ٹماٹر تو مارکیٹ میں ناپید ہوچکے ہیں چنانچہ اتوار بازاروں میں کچا ٹماٹر 120 روپے کلو کے حساب سے فروخت کیا جاتا رہا۔ ٹماٹر کا پورے ملک کی مارکیٹوں میں اچانک ناپید ہونا ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی ملی بھگت نظر آتی ہے جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کراچی‘ لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں مرغی کے گوشت کے نرخ بھی جستیں بھرتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں اس وقت مرغی کا گوشت ساڑھے تین سو اور لاہور میں تین سو روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سبزی منڈیوں میں ٹماٹر کے نرخ اچانک بڑھا دیئے گئے جو مارکیٹوں میں آتے آتے سو روپے کلو سے بھی تجاوز کرگئے چنانچہ ذخیرہ اندوزوں نے مزید منافع کمانے کیلئے ٹماٹر سبزی منڈیوں سے اٹھا کر کولڈ سٹوریجز میں ڈال لئے جس سے ٹماٹر کی قلت پیدا ہوگئی۔ اسی طرح گزشتہ روز اتوار بازاروں میں کالے سیب کے نرخوں میں دس روپے فی کلو‘ کیلے کے نرخوں میں دس روپے فی درجن‘ مالٹے کے نرخوں میں بھی دس روپے فی کلو اور مسمی کے نرخوں میں پانچ روپے فی کلو اضافہ ریکارڈ ہوا۔ یہی صورتحال دوسرے پھلوں اور سبزیوں کی نظر آئی اور لیموں‘ لہسن‘ پیاز‘ گوبھی‘ ہری مرچ‘ شملہ مرچ‘ میتھی سمیت تمام سبزیوں کے نرخوں میں پانچ سے دس روپے کلو تک اضافہ کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑا۔ سروے رپورٹس کے مطابق کراچی اور لاہور کے علاوہ پشاور کی مارکیٹوں اور اتوار بازاروں میں بھی عوام الناس کی مہنگائی کے ہاتھوں درگت بنتی رہی جبکہ مٹن‘ بیف‘ چکن کے بعد اب عام سبزیاں اور دالیں بھی انکی پہنچ سے دور نکلتی نظر آرہی ہیں۔ صارفین کی جانب سے اتوار بازاروں میں میڈیا کے روبرو یہ گلے شکوے کئے جاتے رہے کہ حکومت نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے کوئی میکانزم نہیں بنایا چنانچہ گوشت کھانا تو کجا‘ اب سبزیاں بھی عام آدمی کیلئے افورڈ ایبل نہیں رہیں۔
اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں اضافے کا فوری نوٹس لے کر متعلقہ انتظامیہ کو قیمتیں کم کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے تاہم وزیراعظم کا یہ اعلان عام آدمی کیلئے طفل تسلی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ ملک بھر کی مارکیٹوں میں تمام اشیائے خوردونوش پیر کے روز بھی مہنگائی کے جلوے دکھاتی رہیں جبکہ ذخیرہ ہونیوالا ٹماٹر بھی کولڈ سٹوریجز سے باہر نکلوانے کیلئے کوئی انتظامی احکامات کارگر نہ ہوسکے۔ اس وقت جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئندہ انتخابات کی تیاری میں ہیں اور عوام کو اپنی اپنی سطح پر ریلیف پیکیج دینے کی مختلف تجاویز بھی حکومتی سرکلز میں گھومتی اور حکمرانوں کیلئے دادوتحسین کے ڈونگرے برسانے کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں‘ عین ایسی فضا میں روزمرہ استعمال کی اشیائے خوردونوش کے نرخوں کا اچانک جستیں بھرنا اور پھر ان اشیاءکا مارکیٹوں میں ناپید ہونا بالخصوص حکمران مسلم لیگ (ن) کیخلاف ایک سازش بھی ہو سکتی ہے جس کا اس پارٹی کی حکومتی اور سیاسی قیادتوں کو خود ہی ادراک ہونا چاہیے ورنہ مہنگائی کے مارے عوام کیلئے اس پارٹی کے اقتدار کا بوریا بستر لپیٹنے اور آئندہ انتخابات میں اسکے ممکنہ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بننے کے فراہم ہونیوالے موقع سے فائدہ اٹھانے میں حکومت مخالف جماعتیں اور انکے قائدین کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ عوام پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کے نرخوں میں ردوبدل کیلئے وضع کی گئی نئی حکومتی پالیسی سے عاجز آئے ہوئے ہیں کیونکہ اس پالیسی سے حکومت کو ہر پندرہ روز بعد پٹرولیم مصنوعات بڑھانے کی سہولت مل گئی ہے جس کے باعث گزشتہ تین ماہ سے تسلسل کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ہر پندرہ روز بعد بڑھائے جارہے ہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ دیگر اشیاءکے نرخوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومتی بے تدبیری سے ملک میں پہلے ہی مہنگائی کا سیلاب آیا ہوا ہے جبکہ اب پورے ملک کی مارکیٹوں میں مٹن‘ بیف‘ چکن‘ مشروبات‘ پھلوں‘ سبزیوں اور دوسری اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں اچانک مزید اضافے کے رجحان نے مہنگائی سے عاجز آئے عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے کا بھی اہتمام کر دیا ہے۔
ابھی وفاقی اور صوبائی میزانیوں کے مراحل طے ہونے ہیں جبکہ ماہ رمضان المبارک کی آمد میں بھی ڈیڑھ مہینے کا فاصلہ رہ گیا ہے اور یہ دونوں مراحل ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کے مصداق عوام کیلئے مہنگائی کے نئے اور ناقابل برداشت تحفے لے کر ہی آتے ہیں۔ اگر ان مراحل سے پہلے ہی حکومتی بے تدبیریوں سے عوام کے سامنے مہنگائی کے نئے جھکڑ چلا دیئے گئے ہیں تو ماہ رمضان المبارک کی آمد پر مہنگائی کا عفریت عوام کیلئے کتنی حشر سامانیوں کا اہتمام کریگا اور پھر وفاقی اور صوبائی میزانیوں کے ذریعے زندہ درگور عوام کیلئے مہنگائی کے مزید کتنے گل کھلائے جائینگے‘ عام آدمی تو یہ تصور کرکے ہی مضمحل اور نڈھال ہونے لگا ہے۔ اگرچہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور نرخوں پر چیک رکھنے والی انتظامیہ صوبائی حکومتوں کے تابع ہوتی ہے تاہم ایک دوسرے کے ساتھ بلیم گیم میں الجھی سیاسی قیادتوں کو اپنی حکومت والے صوبے میں شتربے مہار مہنگائی کی شکل میں مضبوط ہونیوالا اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا اور اپنے مخالف صوبوں میں ٹریک سے نکلی چیونٹی کو دیکھ کر بھی وہ چائے کے کپ میں طوفان اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ اگر آج پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ سندھ اور خیبر پی کے میں بھی مہنگائی کا عفریت پھنکارے مارتا نظر آرہا ہے تو انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرنے والوں کو اپنے زیر حکومت صوبوں میں سب سے پہلے اصلاح احوال کی جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ آنیوالی انتخابی سیاست میں انہیں وفاقی حکمران جماعت پر پوائنٹ سکورنگ کا بہتر موقع مل سکے۔ اسکے باوجود وفاقی حکومت کو اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں اچانک ہوشربا اضافے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا بالخصوص اس حوالے سے کہ دو صوبوں پنجاب اور بلوچستان میں بھی وفاقی حکمران مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومتیں ہیں۔
اس وقت جبکہ 2018ءکے انتخابات کی مہم کا عملاً آغاز ہوچکا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت بالخصوص پنجاب میں کئے جانیوالے ترقیاتی کاموں اور ترقیاتی منصوبوں کے بل بوتے پر عوام میں جاررہی ہے اور اس دوران وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف مختلف پبلک جلسوں میں اپنے سابقہ اور موجودہ دور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ بھی لے رہے ہیں اور اسی طرح عوام کو آئندہ سال تک بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات کا مژدہ بھی سنایا جارہا ہے‘ اگر انہوں نے فوری طور پر مہنگائی کے عفریت پر قابو نہ پایا اور ماہ رمضان المبارک کے علاوہ عوام کو وفاقی اور صوبائی بجٹ کے ذریعہ بھی مہنگائی کے تحفے مل گئے تو پھر انکے ترقیاتی کاموں کے کریڈٹ بھی عملاً بے وقعت ہو جائینگے۔ عوام کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا آئین کے تحت ویسے بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جس پر بالعموم حکمران جماعتیں اپنے مخالفین پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتی ہیں اس لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومتی اور سیاسی قیادتوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مہنگائی کا عفریت انہیں اس پوائنٹ سکورنگ کے بھی قابل نہیں چھوڑے گا کیونکہ مہنگائی کی ذمہ داری براہ راست حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے اشیائے خوردونوش کے نرخوں کے جستیں بھرنے کا محض نوٹس ہی نہ لیا جائے بلکہ حکومتی‘ ریاستی اتھارٹی کے تحت ایک مضبوط میکانزم تیار کرکے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی گردنیں ناپنے کا عملی اقدام اٹھایا جائے تاکہ روزہ داروں کیلئے آنیوالا رمضان المبارک مہنگائی کے حوالے سے کسی بے سکونی کا باعث نہ بن سکے۔ اسی طرح آئندہ بجٹ میں عوام کو حقیقی طور پر زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی جامع پالیسی طے کی جائے۔ یہی وہ اقدامات ہیں جنہیں بروئے کار لا کر حکمران مسلم لیگ (ن) آئندہ انتخابات میں سابق حکمران پیپلزپارٹی والی خفت سے بچ سکتی ہے‘ بصورت دیگر عوام دشمن ایک جیسی پالیسیوں پر مکافات عمل بھی ایک جیسا ہی ہوگا۔