منگل ‘ 28 جمادی الثانی 1438 ھ‘ 28 مارچ 2017ئ

آبائی حلقے میں شرجیل میمن کا شاندار استقبال، سونے کا تاج پہنایا گیا۔
یہ استقبال ان لوگوں نے کیا ہے جن کے پاﺅں میں چپل، بدن پر کپڑے اور ویران گھروں میں کھانا پانی تک نہیں۔ وہاں کے عالی مرتبت وڈیرے اور سیاسی رہنما ایک ایسے شخص کو سونے کا تاج پہنا رہے ہیں جو صرف 5 ارب کی کرپشن کا ملزم ہے۔ اس کے باوجود انہیں غریبوں کی خدمت کا دعویٰ ہے۔ 2 برس بیرون ملک علاج کے بہانے جان چھپاتا رہا۔ اب کوئی پوچھے کہ باہر آپ کون سا علاج کرانے گئے تھے۔ آپ تو بھلے چنگے ہٹے کٹے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی معمولی سے جرم پر بھی ملزم کو کم از کم 50ہزار روپے کا ضمانت نامہ جمع کرانا ہوتا ہے۔ مگر شرجیل میمن کو 5 ارب کی کرپشن پر صرف 70لاکھ کے مچلکے داخل کرکے ضمانت مل گئی۔ انکی اپنے حلقے میں آمد پر خوب ہلہ گلہ مچا ناچتے گاتے بھوکے ننگے ووٹروں نے جن کو روزگار، دو وقت کی روٹی، علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم تک نصیب نہیں‘ ہے جمالو کی دھن پر رقص کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا ”بھلی کرائیو“ کی گونج میں سونے کا تاج بھی پہنایا۔ ظاہر ہے یہ تاج غریبوں نے تو بنایا نہیں ہو گا۔ علاقے کے رسہ گیروں اور وڈیروں نے ہی بنا کر دیا ہو گا۔ یہ شاید 5 ارب کی شاندار کرپشن پر اعتراف کارکردگی ایوارڈ ہے۔ جو شرجیل میمن کو دیا گیا۔سو ”اک زرداری ‘ سب پر بھاری“ کا یہ فتویٰ بھی درست ثابت ہوگیا کہ ”جِنّا لچّا‘ اونا اُچّا“۔ اب دیکھتے ہیں ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کی تاجپوشی کب ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امریکہ نے ملک کو خالہ جی کا گھر بنایا ہوا ہے: سراج الحق
تو جناب اس کو یہ اجازت دینے والوں میں آپ کی جماعت اور آپکے سب سے بڑے ممدوح و مربی جناب ضیاءالحق کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کیا ضیاءالحق کے دور میں جب جماعت اسلامی آمریت کے گلے کا ہار بنی ہوئی تھی‘ افغان جہاد کے نام پر ڈالروں میں نہیں کھیل رہی تھی۔ ملک تو اس وقت سے ہی سرتاپا امریکہ کی کالونی بن چکا ہے۔ اس کالونی کے چودھری جماعت اسلامی والے چودھری طفیل محمد مرحوم تھے۔ مجلس شوریٰ سے لے کے ہر محکمے میں تھوک کے حساب سے جماعت والوں کو پورا نظام مشرف جماعت کرنے کا ٹھیکہ مل چکا تھا۔ آج بھی جو الیکشن میں جماعت سیٹیں جیتی ہے یہ اسی افغان جہاد کے ثمرات ہیں جو وہ سمیٹ رہی ہے۔ اس ملک کو امریکہ کی خالہ کا گھر بنوانے میں جماعت کا کردار رہبرانہ ہی نہیں قائدانہ بھی ہے۔ پھر اسکے بعد چل سو چل۔ پی پی پی نے بھی ایشیا سرخ ہے اور جاگیرداری ٹھاہ والے نعرے سمندر برد کر دئیے اور امریکی کالونی کی باگ ڈور سنبھالنے میں عافیت سمجھی اور خالہ جی کے گھر میں خوب عیش کیا۔ مسلم لیگ تو شروع ہی سے امریکی دوستی کے خمار میں مبتلا تھی۔ مشرف دور تو فنا فی الامریکہ کا رہا جس کا دور دورہ آج بھی نظر آتا ہے۔ سچ کہیں تو یہ ہمارا کم اور خالہ جی کا گھر زیادہ ہے۔
ہماری ٹیم میں بھی ایک ریلوکٹا ہوتا تھا: عمران خان
ایک قومی سیاستدان اور عالمی سطح کے کھلاڑی کی زبان گوہر بار سے اگر ایسے ایسے شہکار جملے برآمد ہوں گے تو پھر عام آدمی کی عامیانہ گفتگو پر ناک بھوں چڑھانا بیکار ہے۔ عمران خان کی کپتانی کے دور میں پاکستانی ٹیم کے تمام کھلاڑی اچھے کھلاڑی تھے ان میں سے اگر کسی کو بقول عمران خان ہر ایک جگہ فٹ کیا جاتا تھا۔ اس طرح تو وہ امرت دھارا ہوئے تھے‘ ریلوکٹا نہیں۔ انہیں جہاں بھی کھلایا گیا وہ کھیلے۔ اب ان کے بارے میں یہ بیان کیا کہلائے گا۔ اگر کوئی جوابی طور پر عرض کرے کہ خان صاحب آپ بھی تو میدان سیاست میں گزشتہ 20 برس سے ریلوکٹے کا ہی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ الیکشنوں میں بمشکل ایک آدھ سیٹ جیت پاتے تھے۔ مشرف جیسے کی ہمرکابی کے باوجود اس میدان میں ناکام رہے۔ اب جا کر آپ کو عوام نے شرف باریابی بخشا وہ بھی اپوزیشن میں۔ تو اگر کوئی آپ کو سیاسی ریلوکٹا کہے تو آپ کے مزاج نازک پر کیا گزرے گی۔ آپ کے حمایتی خاص طور پر مراد سعید جیسے کیا کیا گل کھلائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ اپنے قد کاٹھ اور سیاسی قامت کے مطابق بیان داغا کریں تاکہ جوابی حملوں سے محفوظ رہیں۔ سب کی عزت ہوتی ہے۔ جسے اچھالنا کسی کو زیب نہیں دیتا ورنہ طلال چودھری، عابد شیر علی اور خواجہ سعد رفیق جیسے طوطے بھی توپ چلانے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گرمیاں شروع ہوتے ہی لوڈشیڈنگ کا نیا شیڈول تیار
اپریل کی آمد آمد ہے باغوں میں موسم بہار کے پھولوں کی نمائشیں ہو رہی ہیں۔ لوگ سردی کے چلے جانے پر اطمینان کا سانس لے رہے ہیں مگر یہ سکون بہت ہی عارضی ثابت ہو رہا ہے۔ سورج نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ گرمی کے آتے آتے ہی لوڈشیڈنگ کا دیو جو کچھ دیر موسم سرما میں سستانے کیلئے پہاڑوں پر چلا گیا تھا اب پھر واپس آ گیا ہے۔ کیا دیہات کیا شہر ہر جگہ ایک بار پھر بجلی نے بجلیاں گرانا شروع کر دی ہیں۔ وقفے وقفے سے اسی شان سے آنا جانا شروع کر دیا ہے جس شان سے وہ نومبر تک آتی جاتی تھی۔ اب معلوم نہیں حکومت‘ محکمہ بجلی اور واپڈا کے وہ افسانے کہاں گئے جو زبان زدعام تھے کہ 2017ءمیں لوڈشیڈنگ کم سے کم اور 2018ءمیں مکمل ختم ہو گی۔ یہاں تو دور دور تک ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ خدا جانے بجلی کی فراہمی کے وہ دعوے کہاں رہ گئے۔ ابھی تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ 6تا 8گھنٹے شہروں میں 8تا 10گھنٹے دیہاتوں میں جب بجلی نہیں ہو گی تو سیاسی درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ عوام کا پارہ بھی خود بخود ہائی ہونے لگے گا جس کا نقصان ظاہر ہے حکمرانوں کو ہی ہو گا۔ مگر انہیں سمجھائے کون۔ عوام تو فی الحال لوڈشیڈنگ کے ثمرات سمیٹنے کی تیاریوں میں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...