وقت تیزی سے 2018ءکے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میدان میں تین گھوڑے اترنے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اور گھوڑے بھی میدان میں اتریں گے لیکن وہ بڑے گھوڑوں سے مقابلہ کرنے سے عاری ہونگے۔ ان کے پاس ایک یہ راستہ ہو گا کہ وہ بڑے گھوڑوں کے پیچھے لگ جائیں۔ بلاول بھٹو زرداری تازہ دم گھوڑے کی شکل میں سامنے آئینگے۔ اس گھوڑے کی لگام آصف زرداری نے تھام رکھی ہے۔ انکی گھن گرج کا آغاز ہو چکا ہے۔ مرد حُر کا ہاتھ وقت کی نبض پر ہے۔ سیاسی شطرنج کے چیمپیئن ہیں۔ پیپلز پارٹی میں ان کا دبدبہ ہے۔ ان کے سامنے پرانے جیالوں کو بھی دم مارنے کی مجال نہیں۔ انکی نظر پنجاب پر ہے۔ عمران خان بھی پنجاب پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری کہہ چکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پورا پنجاب پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو گا۔ عمران خان نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں لاہور کی تمام نشستیں جیتیں گے۔ خواجہ آصف کا خراج تحسین ملاحظہ ہو کہ زرداری سر سے پا¶ں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے انتخابات سے پہلے ایک دوسرے کو ننگا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائیگی۔ لفظوں کی جنگ دیکھ کر اردو اور پنجابی لغت بھی شرمائے گی۔ زرداری کی حالیہ جملے بازی ملاحظہ ہو ”جِنّاں لُچّا اُنّاں اُچّا“ ”اے کدی پھسدے نئیں‘ اسی کدی بچدے نئیں“ جو اقتدار میں ہیں وہ ایوان اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں جو باہر ہیں وہ ایوان اقتدار میں براجمان ہونے کیلئے بے تاب ہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری تین تین بار ایوان اقتدار کی بے نظیر قلفیاں کھا چکے ہیں۔ ایوان سے باہر ایسی قلفیاں کہاں ملتی ہیں۔
عمران خان نے الیکشن سے پہلے 10 مطالبات منظور کروانے کا اعلان کیا ہے۔ کہتے ہیں مطالبات کی منظوری تک الیکشن نہیں ہونے دینگے‘ دھرنا دینا پڑا تو دینگے۔ مریم اورنگ زیب کے نزدیک عمران خان حسد کے مریض ہیں اور یہ وہ مرض ہے جسکی طب کی دنیا میں کوئی دوائی سامنے نہیں آئی۔ شبیہ الطاف حسین‘ حسین حقانی کا انکشاف پیپلز پارٹی کے گلے پڑ گیا ہے۔ ہمارے ہاں ویزا پالیسی اور قوانین موجود ہیں۔ سفارت خانے ان قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی وضاحت کر چکے ہیں کہ انہوں نے وزارت خارجہ کے ذریعے قواعد و ضوابط کے مطابق خط لکھا تھا۔ کسی بھی سفیر کیلئے وزیراعظم سے بڑھ کر کوئی اتھارٹی نہیں ہوتی۔ امریکی ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کا دیت والا حل بھی حسین حقانی نے تجویز کیا تھا۔ امریکیوں کو جاری ویزوں کی اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ؟ الزام تراشی کے کھیل میں کسی کی جیت ہار نہیں ہوتی البتہ فریقین کا چہرہ بے نقاب ضرور ہوتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا یہ سوال درست ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کیسے آیا تھا اور اسے مارنے والے امریکی کون سا ویزہ لیکر آئے تھے۔ جولائی 2010ءمیں حقانی کو ان امریکی شہریوں کو عارضی ویزا جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا جنہیں امریکی حکومت نے تحریری طور پر سفر کرنے کی اجازت دی ہو یا جن کی درخواستیں مکمل ہوں اور انکی جانب سے واضح طور پر بتایا گیا ہو کہ وہ پاکستان کا سفر کس مقصد کیلئے کرنا چاہتے ہیں۔ 2018ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نئی نسل میدان سیاست میں اترنے جا رہی ہے۔ اس نسل کے تجربہ کار بڑے انکے پیچھے کھڑے ہیں۔ لاہور کے سیاسی میدان میں بلاول بھٹو زرداری‘ حمزہ شہباز‘ عمران خان اور مریم نواز اتریں گی۔
برطانوی نشریاتی ادارہ مریم نواز کو دنیا کے حکمرانوں کی بااثر اور قابل بیٹیوں کی فہرست میں شامل کر چکا ہے جس طرح کچھ عرصہ قبل اسحاق ڈار کو جنوبی ایشیا کے قابل ترین وزیر خزانہ کا اعزاز عطا ہوا تھا۔ 2018ءکی قومی اسمبلی میں مریم نواز اور بلاول کا تقریری مقابلہ دنیا دیکھے گی۔ الیکشن سے پہلے آصف زرداری نواز مخالف قوتوں کو یکجا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرینگے۔ اگر عمران خان بھی انکے ہم نوا¶ں میں شامل ہوہ جاتے ہیں تو پھر نواب زادہ نصراللہ خان والے دور کی گرینڈ الائنس کی یاز تازہ ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ق پیپلز پارٹی تحریک انصاف کا اتحاد گرینڈ الائنس کو سامنے لا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کا بنیادی اتحاد قائم رہے گا۔ پانامہ لیکس کیس کے فیصلے سے سیاست کا پانسہ ضرور پلٹے گا۔ یہ سسپنس اب ختم ہونے کو ہے۔ اسکے ساتھ ہی کتاب سیاست کا نیا ایڈیشن مارکیٹ میں آ جائےگا۔
بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری پنجاب میں پی پی پی کی سیاسی ساکھ بحال کرنے نکلے ہیں۔ بلاول کی توجہ پارٹی کی تنظیم سازی پر جبکہ زرداری ناراض‘ مایوس‘ بیمار گوشہ نشیں جیالوں کو پارٹی میں متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں بلاول کئی بار صوبائی دارالحکومت کا دورہ کر چکے ہیں۔ ضلعی اور صوبائی سطح پر پارٹی کے نئے عہدے دار مقرر کئے ہیں۔ زرداری صاحب نے بلاول ہا¶س کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھنے کی بجائے خود کو میدان عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں پی پی کو پنجاب میں دھچکا لگا جس کے بعد اب پہلی بار پارٹی لیڈرشپ نے ساکھ کی بحالی کیلئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کو 148 میں سے 145 سیٹوں پر پیپلز پارٹی کو شکست کی پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کا ہر امیدوار تیسرے یا چوتھے نمبر پر رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں لاہور جیالوں کا مرکز تھا۔ ہر حلقے میں پیپلز پارٹی کا امیدوار پچاس ہزار سے زائد ووٹ لےکر کامیاب ہوتا تھا۔ 2013ءکے انتخابات میں مڈل کلاس کے ووٹروں کا رخ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف رہا۔ بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کا گراف نیچے آنا شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ گراف ایک دم سے ا وپر کو چلا گیا۔ زرداری کی قسمت کہ پانسا پلٹا لانڈھی جیل کا اسیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر مملکت بن گیا۔ پورے پانچ سال ایوان صدر میں براجمان رہا۔ گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت ہوا۔ زرداری صاحب کی شہرت پر کرپشن کے داغ دھبے لگتے رہے۔ کبھی ٹین پرسنٹ کے لقب سے نوازا‘ کبھی سوئس اکا¶نٹس کی شہرت کو دوام بخشا۔ مقدموں کی بھرمار اور عدالتوں میں پیشی نے زرداری صاحب کو کمزور نہ ہونے دیا۔ ووٹروں کیلئے مریم نواز اور بلاول میں زیادہ کشش ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی سے ہجرت کر کے پی ٹی آئی کی طرف جانیوالے ووٹر دوبارہ ہجرت کر کے پیپلز پارٹی کا رخ کر سکتے ہیں۔