کسی کو پسند کرنا بھی ایک آزمائش ہے اور شاید اس پسندیدگی کو برقرار رکھنا اس سے بھی بڑی آزمائش!
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ گجرات والا، صادق پبلک سکول بہاولپور سے ایف سی کالج لاہور پہنچ چکا تھا اور ہمیں ہماری خوش قسمتی گوجرانوالہ سے گورنمنٹ کالج لاہور لے آئی۔ ہم سینئر تھے مگر وہ جونیئر لیکن ہمیں وہ یاد ہے ذرا ذرا کہ ایک دفعہ ہماری ایک غرض ہمیں اسکے پاس لے گئی کیونکہ رہنمائی میں وہ ہمیشہ ہم سے سینئر رہا۔ بعدازاں ہم پنجاب یونیورسٹی چلے گئے تاہم اس نے ایم اے سیاسیات اور ’’سیاست‘‘ کیلئے ایف سی کالج لاہور ہی کو مقدم جانا۔ ہاں وہ یاد آیا، ایف سی کالج ہمیشہ سے ایک بڑی دانش گاہ ہے، ایف سی والے فارمانائٹس اور جی سی والے راوینز ہونے پر ناز کرتے اور یوں ایچی سن والے ایچی سونینز۔ راوینز کی باتیں کبھی پھر سہی۔ اگر ایف سی اور ایچی سن کلچر کی فہرست لمبی ہوگئی تو معذرت چاہوں گا، کیونکہ میں چاہتا ہوں یہ تاریخ، صحافت اور سیاسیات کے نوجوان طلبہ کی نذر ہو، واضح رہے کہ سابق آمر صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورحکومت میں اپنے کالج فیلوز کا ایک سیاسی ’’سکول آف تھاٹ‘‘ بنایا، اور ایوانوں میں اچانک ایف سی کالج کی بازگشت بڑھ گئی اسی کرشمے نے سابق عبوری وزیراعظم چودھری شجاعت حسین و سابق وزیراعلی پرویزالہی اور شوکت ترین وجہانگیر ترین کو جوڑا۔ راؤسکندر اقبال پی پی پی چھوڑ کر بلکہ پی پی کے کئی ساتھی ایم این ایز سمیت 2002 کے بعد پرویز مشرف وشجاعت حسین سے آملے۔ طارق عزیز جیسا مشیر بھی ملا۔ تاہم یہ بھی ذہن نشین رہے کہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی فارمانائٹس ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال اور سابق بھارتی وزیراعلی پرکاش بادل بھی ایف سی کالج کے طالب علم رہے۔ سابق صدر فارق لغاری فارمانائٹس بھی رہے۔ سابق نگران وزیراعظم میاں محمد سومرو، موجودہ گورنر رفیق رجوانہ اور شاہ محمود قریشی کا تعلق بھی ایف سی کالج سے رہا۔
2002 کے بعد ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمان اور سابق گورنر پنجاب جنرل خالدمقبول کی تعلیم دوستی انقلابی تعلیمی سوچ نے ان دونوں کالجز کو یونیورسٹیاں بنادیا، بہرحال یہ دونوں ادارے ٹیلنٹ کی آماجگاہ تھے اور ہیں۔ سیاسی اور تعلیمی تاریخ کو ضم کرکے دیکھیں تو اشرافیہ کے ایچی سن کالج لاہور کی محبتیں بھی ایوانوں میں باہمی جوڑ توڑ کی حقیقت رکھتی ہیں، سابق صدر فاروق لغاری سے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، چودھری نثار علی خان، اعتزاز احسن اور عمران خان وغیرہ ایچی سن قبیلے سے ہیں۔ سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی، سابق ساتویں وزیراعظم فیروز خان نون، سابق وزیراعلی وگورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی، سابق گورنر و وزیراعلی بلوچستان اکبر بگٹی، سابق وزیراعلی بلوچستان، عطااللہ مینگل، سابق وزیراعلی و گورنر بلوچستان، ذوالفقار مگسی، خیر بخش مری، سابق یونینیسٹ پریمیر آف پنجاب 1942 تا 1947 خضر حیات ٹوانہ، سابق وزیراعلی کے پی کے امیر حیدر خان ہوتی، وزیراعلی پرویز خٹک، فیصل صالح حیات، فخر امام، شاہ محمود قریشی، صفدر عباسی، غلام مصطفی کھر اور سابق نگران وزیراعلی پنجاب (صدر لغاری کی مہربانی سے) میاں افضل حیات وغیرہ بھی نمایاں ایچی سونینز میں شامل ہیں۔ (نمایاں راوین سیاستکاروں اور بیوروکریٹس کا تذکرہ پھر سہی)
قارئین باتمکین! کچھ ذکر مخصوص دانش گاہوں کا راہ میں آ گیا تو ذرا ادھر ادھر ہوگئے ورنہ تذکرہ مقصود تھا ایک اس وزیر دوست کا جس سے میری نہ کوئی سیاسی ونظریاتی وابستگی ہے اور نہ کوئی سیاسی وغیر سیاسی مفاد۔ ہاں ایک مفاد ضرور ہے کہ اسکی تعلیم دوستی سے ہم ’’جائزوناجائز‘‘ استفادہ ضرور کرتے ہیں۔ باعث مسرت واطمینان یہ بھی ہے کہ وہ الیکشن ہاریں یا جیتیں، وہ ایم این اے بنیں یا وزیر تاہم ہر صورت میں وہ ’’غیر سیاست زدہ‘‘ رہتے ہیں۔ میری چونکہ جعفر اقبال چودھری (وفاقی وزیر مملکت برائے پورٹس وشپنگ) سے زمانہ طالب علمی کی قربتیں ہیں چنانچہ میں یار کی کم سنی سے بالغ نظری کی حرکات و سکنات سے آشنا ہوں، مگر قلیل مدت میں جعفر اقبال چودھری نے جو پنجاب بھر کے وائس چانسلرز ، چیئرمین ایچ ای سی پاکستان ڈاکٹر مختار احمد اور ایچ ای سی پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین اور دیگر ماہر تعلیم کی دل میں جگہ پائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہمارے قابل احترام دوست انجنئیر بلیغ الرحمان مائنڈ نہ کریں تو شاید متعلقہ وزیر دلوں کی وہ قربت حاصل نہ کرسکے جو جعفر کے حصہ میں آئی۔ ہم ایویں تو نہیں کہتے، اداس ووٹرز سے پیار کرنا کوئی ان سے سیکھے، تعلیمات میں رنگ بھرنا کوئی ان سے سیکھے!
حسن اتفاق ہے کہ، 21 مارچ 2018 کی سہ پہر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی ایک بین الاقوامی کانفرنس (پہلی حلال انٹرنیشنل اسمبلی) کی دعوت نے دیر بعد اکٹھے سفر کرنے کا جواز بخشا۔ تمغہ امتیاز ڈاکٹر محمد علی شاہ (وی سی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد) ملانے والے لمحوں کی فراہمی کا شکریہ۔ ورنہ 2015 کے ایک ناروے کے سفر کے بعد ہم راہ ہونے کا کوئی موقع ہی ہاتھ نہ آ رہا تھا۔
گو پچھلے دنوں (24 فروری 2018) جعفر اقبال چودھری سے فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز ملتان کیمپس میں ایک مختصر رفاقت رہی جس نے تشنگی بڑھا دی۔ سرکار نے وہاں میزبانوں اور میڈیا کو پروٹوکول کے بغیر اسلام آباد/راولپنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی ملتان پہنچ کر حیران کردیا۔ ایک ملتانی ڈاکٹر آف فزیوتھراپی کے طالب علم نے سوال کیا کہ ’’یہ لمبا سفر اور وہ بھی ہوائی جہاز یا جھنڈے والی گاڑی اور پھوں پھاں کے بغیر، اور واپسی بھی ابھی بذریعہ ریل ہی، آخر کیوں؟‘‘ جوابا بس اتنا کہا کہ ’’پِھر ٹُر کے میلہ دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے! ’’2013 سے جعفر اقبال سے اکثر ملاقات تعلیمی سیمینارز اور یونیورسٹیوں ہی میں ہوئی۔ وہ ایک اور ملاقات یاد آ گئی، پاکستان بننے سے پہلے کا ایک ٹیکنیکل کالج رسول میں ہے، اسی کا ایک جڑواں کالج انگریز نے بھارت کے شہر میں بنوایا جو اب ایک اعلی تحقیقاتی ادارہ بن چکا ہے مگر یہ کالج وہیں تھا۔ ایم این اے بننے کے بعد اچانک مجھے رسول مدعو کیا گیا کہ، کالج ہذا کے پرنسپل سے ملاقات کرنی ہے حالانکہ یہ ادارہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں تھا نہ کہ ایم این اے صاحب کے گجراتی حلقہ میں۔ سرکار چلے اسے پاکستان کی پہلی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی بنانے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ، پاکستان ایچ ای سی اور پنجاب ایچ ای سی والوں نے اسے دیوانے کاخواب سمجھا۔ کیونکہ پاکستان ٹیکنالوجی کونسل کا سرے سے وجود نہ تھا جس کا پہلے ہونا لازم تھا کہ کون اس ڈگری کو ریکُگنائز کرے گا۔ متعلقہ اداروں میں چکر لکا لگا کر اور بیورکیٹس وٹیکنوکریٹس نے ایم این اے کے بھی جوتے ضرور گھسوا دیئے لیکن آخر وہ کر ڈالا جسے جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جاتا ہے۔بات چل رہی تھی جی سی یو ایف کے سفر کی، جب جعفر نے دیکھا کہ ہم چار یار اکٹھے ہوگئے ہیں تو پروٹوکول کو معذرت کی، صرف ڈرائیور رکھا اور اسے کہا پیچھے پیچھے آؤ۔ حسب عادت وزیر مملکت نے میری گاڑی کا سٹیئرنگ سنبھالا، دیرینہ دوست چودھری نصیر ایڈووکیٹ اور میاں طلعت محمود بھی ساتھ تھے اور پرانی باتیں اور یادیں بھی سنگ سنگ رخت سفر باندھے ہوئے تھیں۔
سڑکیں نالیاں، کورٹ کچہریاں تو سارے ایم این اے اور وزراء نبھاتے ہیں لیکن جعفر اقبال چودھری نے حلقے میں تعلیم دوستی کی مثال بھی پیدا کی۔ جعفر نے یہ حلقہ پیپلز پارٹی کے معروف لیڈر قمر زمان کائرہ سے 2013 میں پہلی دفعہ جیتا۔ اس کی پارٹی نے اسے حلقہ لیول، علاقائی سطح، میڈیا محاذ، تنظیمی یا نیشنل و انٹرنیشنل کی جو بھی اسائنمنٹ دی اس نے اسے احسن انداز میں مکمل کیا پس پارٹی نے بھی پہلی مرتبہ ہی ایم این اے بننے پر وزارت سے نوازا۔ ورنہ کئی کئی مرتبہ اسمبلیوں میں پہنچنے پر بھی وزارت کا قلمدان نصیب نہیں ہوتا۔ فیصل آباد کے اس سفر میں مجھے فیصل آباد کے حاجی اکرم انصاری یاد آئے جنہوں نے 1985 تا 2013 تاحال سارے الیکشن جیتنے کے علاوہ کچھ نہ کیا آخر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پہلی دفعہ وزیر مملکت بنایا۔
جاتے جاتے، میں یہ بھی عرض کردوں، میں نے عباسی صاحب کے جعفر کو وزیر بنانے پر اپنے کالم میں کہا تھا بلاشبہ بحثیت دوست، بطورانسان دوست اور ایم این اے شپ کے تناظر میں تمہیں مثالی پایا لیکن اب وزارت کی شاہراہ پر تم کسوٹی پر ہو، ہمارا راستہ وہ اور تمہارا یہ، سو پھسلے تو تنقید کے تیر و نشتر کیلئے تیار رہنا حالانکہ انکی دیانتداری و شائستگی کے سبب کئی ممبران اسمبلی نے مبارکباد دیتے ہوئے انہیں اسمبلی میں کہا کہ، ’’آپ نہیں آج ہم وزیر بن گئے‘‘ ہم نے فیصل آباد سے گجرات کا سفر بھی منسٹر کی ڈرائیونگ ہی میں انجوائے کیا۔ اس دوران سفر سیاسی و تعلیمی بحثیں جی بھر کے ہوئیں۔ اور ہم نے صاف صاف یہ بھی کہا… سرکار یہ وزارتیں اور ممبریاں آزمائش ہوتی ہیں اور قیادت کی کسوٹی بھی پس جاگتے رہنا، دوسروں پر نہ رہنا۔ ایک سوال اور جواب بھی شئیر کرتا چلوں کہ ، جعفر کی ڈنگا‘ شہر رہائشگاہ پر ایک اجتماع میں لاہور واپسی سے قبل مجھ سے کسی نے پوچھا ’’آپ کس کے ووٹر ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ، پارٹی کوئی بھی ہو میرا ووٹ اس کا ہوگا جو لچا لفنگا نہ ہو ، البتہ ، جعفر جیسا کسی بھی پارٹی کا امیدوار میرے حلقے میں ہو اسے ووٹ دوں گا۔ قدمی سیاست زدہ اور وزیر زدہ یار تو اور بھی کئی ہیں۔ ہاں جعفر سے کہوں گا اپنے وزیراعظم عباسی صاحب کو کہیں کہ، اپنے قائد نواز شریف کے ’’مطابق‘‘ ووٹ کو عزت دیں۔ انہوں نے یہ کیا کہا کہ، سنجرانی سے سینٹ کی بے توقیری ہوئی۔ کیا یہ کہنا ایوان بالا اور ووٹ یا ووٹرز کی توقیر ہے؟
جناب وزیراعظم! کیا آپ 1985 تاحال کی اپنوں اور بیگانوں کی پارلیمانی بے توقیریاں بھول گئے؟ کل پھر ایک ٹرک پر پڑھا: سڑیا نہ کر محنت کریا کر !
بقول سیانوں کے: ’’آزمائش اور عروج سب اللہ کی طرف سے ہے اور صبر سب سے بڑی بہادری ہے، صبر سے آزمائش کا عرصہ گھٹتا ہے اور بے صبری سے بڑھتا ہے۔‘‘… بہرحال، ہماری پسندیدگی اور انکی وزارت بھی ایک آزمائش ہے جاناں!