این سی اے کو یورنیورسٹی کا درجہ دینے کی ضرورت

Mar 28, 2018

سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
ابھی سارے تعلیمی اداروں میں نہ سہی‘ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں مگربرداشت و رواداری کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ایک ایسا کلچر، جس کی وجہ سے بہت جلد‘ پاکستان کا روشن وترقی پسند تصور سارے جہاں میںاُجاگر ہوگا۔
وطن کی بنیادی ترقی‘ نوجوانوں کی خوشحالی سے مشروط ہے۔نوجوانوں کاروشن مستقبل ‘ترقی پسند پاکستان کے وجود سے محفوظ ہے۔تو کیوں نہ ریاست اور فرد کے ایک ہی مفاد کے درمیان جو رکاوٹیں حائل ہیں، وہ دو رہوجائیں؟ یہ وہ نقطہ ہے جس پر، نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کی ساری توجہ، اپنے دور میں کئے اہم فیصلوں کے ذریعے مرکوز رہی۔ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مصروف مصور بھی ہیں۔ ایک ایسے مصروف مصور ، کہ جن کی پینٹگزلندن کنگز کالج ہسپتال سے لے کر وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد تک کی دیواروں پہ، دیکھنے والے بڑے بڑے مصروف لوگوں کو اپنے وقت کا خاصہ حصہ یہاں گزارنے پہ مجبور کرتی نظر آتی ہیں۔پاکستان کی ترقی چاہنے والے یہ ایک ایسے استاد ہیں، وطن کی چاہت میں، جو لندن کی ایک یونیورسٹی میںپونڈزسے لدی لدائی نوکری چھوڑ کر لاہور لوٹ آئے تھے۔این سی اے کا ماحول بتاتا ہے کہ،پروفیسر جعفری کا لندن کی نوکری سے نیشنل کالج آف آرٹس تک کا سفر، رائیگاں نہیں گیا، کیونکہ ان کے طالب علم کبھی یہ سفر ضائع جانے نہیں دیںگے،اِن کے طالب علموں نے، اپنے استاد کے رنگ میں خود کو رنگ جولیا ہے، اب ہر ایک طالب علم میں پروفیسر جعفری دکھائی دیتا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں داخل ہونے کے ساتھ ہی یہ خیال، ذہن میں آتا ہے کہ ہر طالب علم اپنے دور کا کامیاب مصور ہے، ہر طالب علم آنے والے اپنے زمانے کاایک بڑا فنکار ہے، ایک ایسا طالب اور ایک ایسا فنکار کہ جو پاکستان کے مستقبل پر امن پسند ملک کی مہر ثبت کرے گا۔ پروفیسر جعفری نے اپنے ایک ایک طالب علم پر اس طرح محنت کی ، کہ اِن کی سالوں پر پھیلی یہ محنت اپنے طالبعلموں کے محفوظ مستقبل کے لئے این سی اے کو یونیوسٹی کا درجہ دلانے کی حد کراس کر گئی،یہ حد سے بڑھی پروفیسر جعفری کی پاکستان کے ساتھ محبت ہے کہ وہ اپنے دور میں این سی اے کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لئے بڑے بے قرار نظر آتے ہیں، اتنے بے قرار کہ، جب بھی گفتگو کے لئے اِن سے رابطہ کیا تو ہمیشہ اسلام آبادیا کسی اور میٹنگ میں انہیں،اسی اہم سلسلے کو حتمی موڑ دینے کی کوششوں میں ہم نے مصروف پایا،ایسی مصروفیت پاکستان کے حکمرانوں کو بھی دکھانی چاہئے کہ این سی اے کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر نوجوانوں کا مستقبل محفوظ کردیں۔ پروفیسر جعفری سوچتے ہیں کہ اگر یونیوسٹی کی منظوری دیکر نوجوانوں کو محفوظ مستقبل مہیاکردیاجائے تو بدلے میں این سی اے کے نوجوان ہمیں روشن پاکستان دیں گے۔یہ وہ روشن پاکستان ہوگا،جہاں برداشت و رواداری کے کلچر کی بہار ہوگی،اس بہار کے سبب ہر طرف خوشحالی ہوگی۔ایسی مستقل خوشحالی ،جو نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی کے ذریعے ، سارے وطن میںپھیلائی جاسکتی ہے۔
سارے وطن میں اِس وقت،افراتفری کا ماحول ہے،اِس سیاسی ماحول کی ابتری سے دُور‘این سی اے میں فنون لطیفہ کا درس جاری ہے، پاکستان میں طلبہ کی بڑی تعداد مصوری،گائیکی ،موسیقی ، ماڈلنگ ، فلم انڈسٹری، فیشن ڈیزائننگ و آرٹس کے دیگر شعبوں کو اپنے مستقبل کا محفوظ حصہ سمجھتی ہے،طالب علم لڑکی اور لڑکے کی بڑی تعداد کا یہ خیال اس بات کو آشکار کرتا ہے کہ نئی نسل برداشت ، امن و محبت کی ثقافت پہ یقین رکھ رہی ہے۔ این سی اے میں ہر سال داخلے کے لئے طالبعلموں کی ایک لمبی قطاربھی اس بات کا کھلاثبوت ہے، اس معاملے میں اہم نقطہ وطن کے تمام اہم طبقوں کابھی ایک رائے پہ متفق ہونا ہے، اور وہ رائے یہ کہ وطن کے سارے تعلیمی اداروںکو نہ صرف ریسرچ پہ فروغ دینی چاہئے، طلباء کی مثبت ذہنی نشوونما پر بھی بلکہ خصوصی توجہ ہونی چاہئے۔پروفیسر جعفری سے خصوصی توجہ حاصل کرنے والے اِن نوجوانوں کو چاہئے کہ پڑھ لکھ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوکے یہ اپنے وطن، گھر اور معاشرے کی ترقی کے لئے اپنے استاد کی طرح کچھ کریں، کہ وہ دیہ جو لندن چھوڑ کر لاہور آنے سے جلا،بجھ نہ پائے۔ نیشنل کالج آف آرٹس کویونیورسٹی کا درجہ ملنے کا خواب، ابھی دُور ہے، مگر این سی اے کے پرنسپل کی شام و صبح محنت کے باعث ‘پاس نظر آتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کا یہ جذبہ ، یہ احساس اُن کوششوںمیںبھی نظر آتاہے،جس کا آغاز انہوں نے کالج کو پُرامن و کسی بدعنوانی سے پاک ماحول فراہم کر کے دیا۔درحقیقت وطن کو کسی بھی طرح کی بدعنوانی سے دور کرنے کی صحیح کوششوں کاآغاز ڈاکٹر جعفری نے اپنے دور میں این سی اے سے کیا تھا،رفتہ رفتہ دیگر اداروں میں بھی مگر اب اپنے اپنے احتساب کا ذکر چل پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این سی اے کی کارکردگی میں پچھلے سالوں میں اضافہ ہواہے،نصابی نگرانی سے لے کر مالی حساب کتاب تک،ایسے عمدہ مشاہدات ہیں کہ طالب علموں میں پڑھنے کاشوق نہ چاہنے پر بھی بڑھ جاتاہے۔ عدم برداشت وتشددکاایک وہ کلچربھی شکست کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، طالب علموں کے مقدر کے ساتھ،جوایک تنظیم نے جوڑ دیا تھا۔ این سی اے میں چاروں صوبوںسے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی پروفیسر جعفری نے برابر کی بنیاد پر اہمیت دی ہے ، ان سب کے والدین اور ان کے اپنے اپنے علاقے کے لوگ جب یہاں پڑھنے والے اپنے بچوں کو مصوری، گائیکی ،موسیقی ، ماڈلنگ ، فلم انڈسٹری، فیشن ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کرتے دیکھ کر اِن کے رویوںمیں آنے والی مثبت تبدیلی کاجب نظارہ کرتے ہیں تو ان کا دل عش عش کر اُٹھتا ہے،پرنسپل نے نہ صرف وطن کو ایک ہی لڑی میں پرویا،بلکہ کلاسز کے دوران اپنے تجربات بھی بتا کر طلباء میںمثبت احساس کے جذبات کوبڑھاوا دیا ہے، جس سے سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے حوصلوں کویقین کی آس ملی ہے۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب نوجواں کومثبت تعلیم دینے سے جڑا ہے، یہ نوجوان وطن کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

مزیدخبریں