فوجی اتحاد نیٹو نے بھی روس کے 7سفارتکاروں کو بے دخل کردیا ،اس کے علاوہ مزید3 سفارتکاروں کے اسناد سفارت منظور کرنے سے انکار کردیا۔نیٹو کے اقدام کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے ملک بدر کیے جانے والے سفارتکاروں کی تعداد 150تک جا پہنچی ہے۔دنیابھرکے سرمایہ دارانہ نظام سے جڑے 25ممالک کی جانب سے روسی سفارتکاروں کی بیدخلی کو روس سے ان ممالک کے تعلقات میں اہم موڑ قراردیا جارہاہے۔گزشتہ روز آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرنبول میں روسی جاسوس پر کیمیکل حملے پر 2روسی سفارتکاروں کو ملک سے بیدخل کرنے کااعلان کیاتھا اور کہاتھا سیلسبری میں روسی جاسوس پر ہونےوالا حملہ ہم سب پر حملہ ہے۔اس سے قبل برطانیہ کے بعد امریکہ سمیت کئی ممالک نے100 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔امریکا نے 60روسی سفارتکار ملک بدر کیے تھے، جرمنی نے 4 روسی سفارت کاروں کوجبکہ لتھوینیا اور پولینڈ کا بھی روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا۔ ڈنمارک نے 2 جبکہ یوکرائن نے 13 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ سنایا۔فرانس نے بھی عالمی لہر کا حصہ بنتے ہوئے اپنے ملک سے 4 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور یورپی یونین کے 14 ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب روس کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ سفارتکاروں کی بے دخلی کے معاملے پر ہر ملک کو آئندہ کچھ دنوں میں مناسب جواب دیا جائے گا۔خیال رہے کہ 10 مارچ کو برطانوی شہر سلسبری میں 66 سالہ سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپل اور ان کی بیٹی 33 سالہ یولیا اسکریپل کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس حوالے سے برطانوی پولیس کا کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹی کو اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل مواد سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ نے روس کے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا تھا۔