گولان پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کی موت

دنیا میں آج بھی جنگل کا قانون چل رہا ہے قانون اور انصاف صرف کہنے اور سننے کی باتیں ہیں ٹرمپ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کا حصہ قرار دے رہا ہے ۔
واشنگٹن میں بیٹھے شہ دماغ شاطر برملا کہہ رہے ہیں کہ عربوں میں دکھاوے کا احتجاج ہوگا اور کچھ بھی نہیں ’ قبضہ تو پہلے ہی ہے اب اس کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔جسے عرب بھائیوں کی مکمل حمایت ہے ۔تیسری عالمی جنگ کے پروانے پر صدر ٹرمپ نے دستخط کردئیے۔ صہیونی سازشی دماغوں کی چالوں میں ’عیسائی قوت‘ مکڑی کے جال میں پھنسی مکھی کی طرح بے بس ہے۔ یروشلیم یعنی ’امن کے شہر‘ کو فسادفی الارض پھیلانے والوں کے حوالے کرنے کے باضابطہ اور یک طرفہ اعلان کے بعد اب گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مشرقی وسطی جاری فساد کو دھکتے الاؤ میں بدلنے کی بنیاد رکھ دی گئی ‘مہا اکال‘ کے نقارے بج ر ہے ہیں۔ 1967 میں یہودی کو جنگ پڑی تھی ، اس بار صیہونی منصوبہ سازوں نے بغیر جنگ لڑے ہی عربوں اور اسلامی دنیا کو شکست فاش دے ڈالی ہے۔
اس اقدام کے بعد عملا اقوام متحدہ مرحومہ ’لیگ آف نیشنز‘ بن چکی ہے۔ عالمی ادارے کے طورپر اس کی ’وفات‘ تو پہلے ہی ہوچکی تھی، یروشلم امریکی سفارت خانے کی منتقلی اور اب گولان پہاڑیوں پر کھلی غنڈہ گردی کے بعد اس کی تدفین بھی ہوگئی ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ برس امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کرکے ہر شک وشبہ کو رفع کردیا تھا کہ امریکہ اور صیہونی ریاست کیاکرنے جارہی ہے۔ یہ سازش بھی اب واضح ہوچکی ہے کہ ٹرمپ کو لانے کے پس پردہ اصل محرکات کیاتھے۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ امریکی انتخابات میں ہو نے دھاندلی والی روس کے گلے میں ڈال دی گئی تھی حالانکہ اس کیمنصوبہ ساز صیہونی تھے۔ یہ سب اْن کا کیادھرا تھا لیکن بڑی چالاکی سے عوام اور میڈیا کو گمراہ کرنے کے لئے یہ ملبہ روس کے سر تھونپ دیاگیا۔ گویا ایک تیر سے دو شکار کئے گئے۔
25 مارچ کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہوکے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی ناجائز قبضہ کو تسلیم کرنے کے پروانے پر جلی حروف میں دستخط کئے اور بڑے فخر سے پوری دنیا کو دکھایا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جن کی بنا پر ٹرمپ کو اسرائیل کا عظیم دوست قرار دیتے ہیں۔
’ھضبۃ الجولان‘یعنی مرتفعات الجولان‘ کے نام سے مشہور گولان کی پہاڑیاں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ اسرائیل کو پانی کا فراہمی کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ دریائے یرموک کے کنارے یہ پہاڑیاں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں مصراس علاقہ سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا جسے 1981 میں اسرائیل نے اپنا حصہ بنانے کا باضابطہ اعلان کیاتھا۔ اس میں ہرمون کی پہاڑی کا حصہ بھی شامل ہے۔لبنان اور اردن سے بھی یہ علاقہ متصل ہے۔بحرطبریہ اور دریائے اردن بھی اس کے قرب میں ہیں۔ بائبل میں گولان کا ’شہرپناہ‘ کے نام سے تذکرہ ہوا ہے۔
امریکی صدر کا یہ قدم اسرائیل میں نئے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے ’منصوبے‘ کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ سیکولر ازم کے لبادے میں لپٹی ’لِیکَڈ پارٹی‘ ایریل شیرون کا سیاسی ورثہ ہے جو بنیاد پرست کٹر صیہونیوں پر مشتمل ہے۔ بینجمن نیتن یاہو اس وقت اسی جماعت کے بل پر وزیراعظم ہیں۔ وہ اس اقدام کو اپنی ایک اور بہت بڑی فتح کے طورپر استعمال کریں گے۔
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے خلافت کے پرکشش نعرے کی آڑ میں قاتلوں کے گروہ کو داعش کانام ملا تھا۔ یہ سب منصوبہ سازی اسرائیل اور امریکہ کے شہہ دماغوں کی تھی۔ سات برس گزرے لیکن شام میں امریکہ اور اسرائیل کو منہ کی ہی کھانی پڑی۔ صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ اْلٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن ’انگور کٹھے ہیں‘ کے مصداق امریکہ اور اسرائیل کی دال نہ گل سکی۔ الْٹا یہ ہوا کہ روس، ایران، چین، حزب اللہ اور دیگر کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ کرد علاقوں میں قائم داعش کے بچے کھچے ٹھکانوں پر بھی شامی فوج قبضہ کی صورت سامنے آچکا ہے۔
امریکہ واسرائیل بخوبی جان چکے ہیں کہ داعش جیسی وحشت ناک اور دہشت گردی کو پچھاڑنے کے بعد شام کی قوت کا مقابلہ کیسے کیاجائے؟ اسرائیل کے میزائل اور فضائی حملوں کو بھی وہ ناکام بناچکا ہے۔ اب انہیں یہ خدشہ محسوس ہورہا تھا کہ شام اپنے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کرانے کے لئے خاموش نہیں بیٹھے گا۔اطلاعات آرہی تھیں کہ لبنان کے اسلامی مزاحمتی گوریلوں اور حسن نصراللہ کی حزب اللہ نے گولان پہاڑیوں کے قریب خود کو مستحکم ومضبوط بنالیا ہے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کاحالیہ اعلان 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے بھی خلاف ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شام کی سرزمین کا حصہ ہیں۔ شام کے نائب وزیرخارجہ فیصل مقداد نے حال میں کہا کہ ’’ گولان پہاڑیوں پر قبضہ مضبوط بنانے کے لئے ہونے والی اسرائیلی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے میں دمشق کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوگا۔‘‘صیہونی ناجائز حمایت میں ہر حد سے گزرنے پر امریکہ نے دنیا بھر کی نفرت اپنی جھولی میں ڈال لی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں امریکہ کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ امریکی صدر کی قوت کو جس بے رحمی سے ایک ناجائز ریاست کو سند جواز فراہم کرنے میں استعمال کیاجارہا ہے، اس نے عالمی قانون، ضابطوں اور عالمی اداروں کے وجود کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نہ تو پاگل ہے اور نہ ہی احمق، یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے اور اس کے پیچھے پوری ٹیم، منصوبہ ساز اور وسائل کام کررہے ہیں۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم مشرق وسطی میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیل اپنی تاریخی عمر کے ایک اہم ترین دور میں داخل ہوچکا ہے۔ معبد کے قیام کے لئے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب نے صیہونی عزائم کو مزید واضح کردیا ہے۔
عرب دنیا بالخصوص اور ملت اسلامیہ بالعموم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے، موت کے منہ میں جانے کی حماقت شوق سے کررہی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک کی قیادت اس بڑے خطرے سے نظریں چرائے ہوئے ہے، یا پھر خود اس منصوبے کا حصہ بنی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے نقصان سے ہم دوچار ہونے جارہے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل اپنی ناجائز ریاست کا رقبہ بتدریج لیکن مسلسل بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب اس خطے میں اصل وارث یعنی مظلوم فسلطینیوں کا قتل عام جاری ہے تاکہ خالی سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری کا سلسلہ آگے بڑھ سکے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ میں یہ پہلو پہلے ہی منکشف ہوچکا ہے کہ صیہونیوں کی بڑھتی آبادی کی بناء پر مزید خالی جگہ اسرائیلی حکومت کو درکار ہے۔ اسی لئے ایک منصوبے کے تحت فلسطینیوں کا قتل عام کیاجاتا ہے، ان پر بیہمانہ بمباری کی جاتی ہے۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ شاید موت سے گھبرا کر فلسطینی یہاں سے نقل مکانی کرجائیں گے لیکن جب چھوٹے چھوٹے بچے بھی ابابیل کی طرح ہاتھوں میں کنکریاں اور پتھر اٹھائے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوگئے تو پھر قتل عام کی حکمت عملی اپنائی گئی جس میں حالیہ عرصے میں مزید تیزی آچکی ہے۔
آسمان دنیا پر امڈتے سیاہ بادل آنے والے حالات کی پیشگوئی کررہے ہیں۔ امت مسلمہ خاص طورپر عرب دنیا
پر قہر منڈلارہا ہے۔ اس کی چنگاری گولان پہاڑیاں بھی اسرائیل کے حوالے کرکے امریکی صدر نے بھڑکادی ہے۔ یہ اس جنگ کا نکتہ آغاز ہے جس سے دنیا ’وَن ورلڈ‘ کے نئے نظام میں ڈھلنے جارہی ہے۔ یہ ظلم کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ وہ واقعہ دہرایا جارہا ہے کہ جب اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے بعد ’لیگ آف نیشنز‘ کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اب امریکی صدر کے ذریعے ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور عالمی قانون اسی قبر میں اتر گیا ہے جس میں لیگ آف نیشنز دفنائی گئی تھی۔ یعنی استعمال کرنے کے بعد اب ثبوت مٹا دیاجائے گا تاکہ کوئی رکاوٹ نہ رہے اور دنیا میں صرف غنڈہ گردی کا راج ہو۔
پس نوشت:- عمان میں مقیم پاکستانیوں کے بچے بھارتی سکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں ۔مسقط عمان میں مقیم پاکستانیوں کا بھی سب سے اہم اور بنیادی مسلہ بچوں کی تعلیم کا ہے ویسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بڑے گن گائے جاتے ہیں لیکن مشرقی وسطی میں پاکستانی بچے بھارتی سکولوں میں پڑھنے پر بھی مجبور ہیں ۔
سعودی عرب میں ایک خاتون سینٹر نے پاکستان سکول کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا مسقط کے پاکستانی سکول پر بھی بے پناہ دباؤ ہے ہزاروں بچے یہاں زیر تعلیم ہیں ہزاروں بچے ایک معروف نجی پاکستانی سکول میں بھی پڑھ رہے ہیں لیکن مضافات اور دور دراز کے شہروں میں رہنے والے پاکستانی بچے بھارتی سکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں بھارتی استاد پاکستانی بچوں کو کیا پڑھاتے ہوں گے اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ان سب سکولوں کو مقامی قوانین کے تحت ہی چلایا جاتا ہے جس کیلئے پاکستانی وفاقی وزارت تعلیم کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے یہ کام اب کون کرے اسلام آباد میں تو کسی کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے شفقت محمود غور کریں سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت اور وزارت خارجہ کچھ کرے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن