خاتون اُحد میدانِ یمامہ میں

خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدعیء نبوت مسیلمہ کذّاب کا فتنہ زور پکڑ گیا ،آپ نے حضرت سیف اللہ ،خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر جرار دے کر اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔خاتون اُحد حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا بھی اس لشکر میں شامل تھیں،ان کے فرزند حضرت عبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ تھے ،دونوں لشکر یمامہ کے میدان میں مدمقابل ہوئے ،نہایت گھمسان کا رن پڑا ۔شروع میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا لیکن سالار لشکر نے اہم احباب کے مشورے سے فوری طورپر نئی حکمت عملی تشکیل دی اور مسلما نو ں نے مجتمع ہوکر نہایت ہی جرأت ،شجاعت اورپامردی سے بنوحنیفہ کے لشکر پر یلغار کردی ۔
اب مسیلمہ کی فوج نے پسپائی اختیار کی اور ایک ایسے وسیع وعریض باغ میں پناہ گزین ہوگئی ،جس کے گرد نہایت مضبوط قسم کی فصیل تعمیر کی گئی تھی۔دروازے کو مقفل کردیااور بنو حنیفہ نے فصیل پر مورچے سنبھالیے وہ بڑے ماہر تیر انداز اورنیزاباز تھے لیکن صحابی رسول حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے ناقابلِ یقین جرأت کا مظاہرہ کیا ،وہ فصیل پر کود گئے،لڑتے بھڑتے باغ کے دروازے تک پہنچ گئے اوراسے کھول دیا۔اب لشکر مسیلمہ اورمسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن لڑائی شروع ہوگئی ،حضرت اُم عمارہ بھی بڑے جوش و جذبے سے برسرپیکار تھیں۔آپ نے کئی بار مسیلمہ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہر بار بنو حنیفہ آہنی دیوار بن کر راستے میں حائل ہوگئے ۔رفتہ رفتہ مسلمان غالب آنے لگے ،مسیلمہ نے لڑائی کا رنگ بدلتے دیکھا تواپنے پیروکاروں سے کہا : اپناننگ وناموس بچانا ہے تو بچالو!اس وقت حضرت اُم عمارہ نے اسے تاک لیا اورزخم پر زخم کھاتی اپنی برچھی سے راستہ بناتی ہوئیں اس کی طرف بڑھیں اس کوشش میں انھیں گیارہ زخم آئے اورایک ہاتھ بھی کلائی سے کٹ گیا ،وہ مسیلمہ کے قریب پہنچ کر اپنی برچھی سے اس پر حملہ کرنا ہی چاہتی تھیں کہ اتنے میں دو ہتھیار اس پر ایک ساتھ پڑے اوروہ کٹ کر گھوڑے سے نیچے جاگرا ،آپ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اپنے پہلو میں اپنے فرزند حضرت عبداللہ بن زید کو کھڑے پایااورقریب ہی وحشی بھی کھڑے تھے۔وحشی نے اپنا حربہ مسیلمہ پر پھینکا تھا اورعین اسی وقت عبداللہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کردیا تھا۔اُم عمارہ نے مسلمانوں کے اس بدترین مرتد دشمن اوراپنے فرزند حبیب بن زید کے قاتل کو خاک وخون میں غلطاں دیکھاتو سجدہ شکر بجالائیں ۔
لشکر کے امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت اُم عمارہ کی فضیلت اورمرتبے سے اچھی طرح آگاہ تھے، انھوںنے بڑی توجہ سے آپ کا علاج کروایا، کچھ عرصہ بعد ان کا زخم بھر گیا لیکن ایک ہاتھ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں قربان ہوگیا ۔جب کبھی اس واقعہ کا ذکر ہوتا توحضرت اُم عمارہ ،حضرت خالد بن ولید کی بڑی ستائش کرتی اورفرماتیں ،خالد نے بڑی غم خواری سے میرا علاج کروایا وہ بڑے ہمدرد اورنیک طینت انسان ہیں۔

ای پیپر دی نیشن