کرونا وائرس : حکمت عملی کی اشد ضرورت

Mar 28, 2020

رحمت خان وردگ....

کرونا وائرس کی وباء عالمی مسئلہ ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جارہی ہے اور یومیہ اموات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ سب سے پہلے تو عالمی طور پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بالکل درست بیان دیا ہے کہ تمام جنگیں ختم کرکے تمام ممالک اپنی افواج اپنے ملکوں میں واپس لے جائیں اور ایران سے فوری طور پر پابندیاں ختم کرکے غریب ممالک کے قرضے معاف کرکے تمام اقوام عالم مل کر صرف اور صرف کرونا وائرس سے مشترکہ جنگ کریں اور کشمیر سے لاک ڈاؤن کا خاتمہ کرکے کشمیریوں کو فوری مناسب طبی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ کرونا وائرس سے وادی کشمیر متاثر نہ ہو اور اقوام عالم مودی کو اس معاملے میں پابند کریں کہ کشمیر میں کرونا وائرس سے متعلق مناسب اقدامات کئے جائیں۔کرونا وائرس ایک قومی اور ناگہانی مسئلہ ہے اور اس معاملے پر قطعی طور پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے اور اپوزیشن کو چاہئے کہ اپنی موثر تجاویز دے اور وفاق کو بھی چاہئے کہ کرونا وائرس کے معاملے پر قومی متفقہ پالیسی کی تشکیل اور عملدرآمد کی جانب تیز پیشرفت کرکے اسے اتفاق رائے سے ملک بھر میں فوری رائج کرے اور حکومت و اپوزیشن اس نازک وقت میں پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے ایسے اقدامات کریں جس سے ملکی معیشت اور عام دیہاڑی دار مزدور کی حالت بہتر ہوسکے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کرونا وائرس سے مناسب مقابلہ کرکے عوام کی جانوں کو بھی محفوظ بناسکے۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی کمزور تھی اور حکومت اب دعوے کررہی تھی کہ معیشت پہلے سے مستحکم ہوچلی ہے لیکن کرونا وائرس کے بعد دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ایسی نازک صورتحال میں ہماری قومی پالیسی ہی ہماری معیشت کو کرونا وائرس کے بدترین نقصانات سے بچانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد بہتر ہوتا کہ حکومت پیٹرول 55روپے اورڈیزل 60روپے لیٹر کردیتی تو بھی عوام کو مہنگائی کے طوفان سے کسی حد تک نجات مل جاتی اور ہر چیز کی قیمت میں نمایاں کمی آسکتی تھی لیکن وفاق نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے مناسب کمی نہیں کی اور حکومت کو چاہئے کہ یکم اپریل سے پیٹرول 55روپے اور ڈیزل 60روپے لیٹر کرنے کا اعلان کرے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر کے ایک کروڑ 20لاکھ دیہاڑی دار مزدوروں کیلئے ماہانہ 3000روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے اور مبینہ طور پر پیکج کی رقوم صوبے مقامی ڈپٹی کمشنرز اور بلدیاتی چیئرمین کے ذریعے عوام تک پہنچائینگے۔ میرے خیال میں اس قدرتی آفت کے دوران عام غریب آدمی تک وزیراعظم ریلیف پیکج کی رقوم پہنچانے کا سب سے موثر ذریعہ مقامی مساجد کے امام ہیں جن کے ذریعے آس پاس کے غریب ترین لوگوں کو منصفانہ طریقے سے امدادی رقوم پہنچائی جاسکتی ہیں۔کرونا وائرس سے بھی قوم نے جنگ لڑنی ہے اور غریب آدمی اور معیشت کو بھی بچانا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کے زبانی بیانات بالکل درست ہیں کہ اسی ترجیح کو لیکر قومی پالیسی تشکیل دی جانی چاہئے لیکن بدقسمتی سے سندھ خصوصاً کراچی میں جس طرح کا ماحول بن چکا ہے ایسے میں تو معیشت مکمل طور پر جام ہوگئی ہے اور اس قدر جلدبازی میں لاک ڈاؤن کیا گیا کہ کراچی میں مزدوری کرنے والے غیر مقامی افراد کو اپنے گھروں تک واپس پہنچنے کی مہلت نہیں مل سکی اور غریب مزدور رکشہ اور موٹر سائیکلوں پر اپنے آبائی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور ہوئے لیکن ان سے راستے میں پولیس وانتظامیہ نے جو رویہ روا رکھا وہ مظالم کی ایک الگ داستان ہے۔ کراچی مکمل لاک ڈاؤن ہے اور ایسے میں درآمدی اور برآمدی سامان کے بحری جہاز پورٹ پر لنگر انداز کھڑے رہیں گے اور سامان کی نقل و حمل اس وقت دشوار ترین ہوچکی ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ کاروبار مکمل لاک ڈاؤن کی جانب جارہا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پاکستان معاشی طور پر بہت کمزور ہوجائے گا۔ جس طرح جلد بازی میں لاک ڈاؤن کیا گیا اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ روز کمانے اور روز کھانے والا کہاں جائیگا۔ غریب دیہاڑی دار آدمی جیتے جی مرچکا ہے اور سوشل میڈیا پر تواتر سے ایسی ویڈیوز آرہی ہیں کہ ہمارے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء اور نقد رقم نہیں ہے ۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں؟ جن نجی دفاتر میں ایک کمرے میں ایک شخص الگ بیٹھ کر اپنا کاروبار کررہا تھا ان کو بھی بند کردیا گیا ہے حالانکہ ایک کمرے میں ایک شخص کے بیٹھ کر اپنے پیشہ ورانہ امور سرانجام دینے سے کرونا وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ایسے دفاتر کو بھی کراچی میں مکمل بند کرادیا گیا ہے اور اس قدر تشویشناک صورتحال ہے کہ صاحب حیثیت لوگ بھی کچھ عرصہ موجودہ صورتحال جاری رہنے کے بعد کنگال ہوجائینگے۔ بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور کاروبار ی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں۔خدارا !اس تشویشناک صورتحال میں وفاق اور صوبائی حکومتیں کرونا وائرس سے جنگ کرنے کے ساتھ ساتھ غریب دیہاڑی دار آدمی‘ ملکی کاروبار و معیشت کو بھی دیکھے اور افراتفری کا خاتمہ کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر پنجاب کے کچھ علاقوں کی ایسی تصاویر آئی ہیں کہ کاروبار کھلا ہے اور انسانوں میں منظم طریقے سے 6فٹ کا فاصلہ بھی برقرار رکھا گیا ہے اور ان تصاویر سے قومی پالیسی کی تشکیل کی جانب مناسب گائیڈ لائن ملتی ہے کہ پولیس و انتظامیہ ہر کاروبار کے لئے ہر انسان کے درمیان 6فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کو یقینی بناکر تمام کاروبار کھول دے تو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام بھوک سے مرنے سے بھی بچ جائے گی اور ملکی معیشت بھی ناقابل تلافی نقصان سے بچ جائے گی۔درآمدات و برآمدات بھی جاری رہنی چاہئیں۔ میری تمام سیاسی و عسکری لیڈرشپ سے اپیل ہے کہ خدارا اس معاملے پر فوری موثر اور متفقہ قومی پالیسی تشکیل دیں۔

مزیدخبریں