جب سے انسان عالم آباد سے جہان شاد آباد میں وارد ہوا ہے اس کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ مشکلات کبھی قدرتی آفات کے نتیجے میں وارد ہوئیں تو کبھی انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے ایسی آگ لگائی جس کو بجھانے میں برسوں بیت گئے۔طوفان نوح سے لے کر ماضی قریب تک آنے والی قدرتی آفات اور وبائی امراض کے نتیجے میں ان گنت انسان دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گئے: تیرھوی اور سولھویں صدی میں طاعون کی وباء سے یورپ میں بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں۔ ۱۶۶۶ء میںبرطانیہ میں طاعون پھیلنے سے ایک لاکھ سے زائد انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔انیسویں صدی کے آغاز سے قبل امریکا میں ہیضے کی وباء سے لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگ اول عظیم کے دوران دنیا کا ہر تیسرا شخص اسپینش فلو کی زد میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وباء سے پانچ کروڑ افراد متا ثر ہوئے۔
چیچک ، خسرہ، جذام اور پولیو وائرس ایسے امراض ہیں جو انسانیت کی بقا کے لئے ایک چیلنج کے طور پر ابھرے لیکن انسانوں نے مسلسل محنت ، تحقیق اور تجربات سے ان امراض پر قابو پالیا۔ اس وقت دنیا کو کورونا وائرس کی شکل میں ایک عالمگیر وباء سے سابقہ درپیش ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں با آسانی منتقل ہوجاتا ہے۔ چائنہ کے شہر ووہان میں اس مرض نے جنم لیا اور چند ہفتوں میں دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت یورپ کا اکثریتی علاقہ اس جان لیوا وباء کی زد میں ہے۔اٹلی بد ترین صورتحال سے دوچار ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کے مطابق جنگ عظیم دوئم کے بعد جرمن قوم پر مشکل ترین وقت ہے۔ امریکا جیسے بادشاہ سلامت کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے
چند روز قبل تک پاکستان کے عوام حسب عادت اس وباء کا مذاق اڑا رہے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے پڑوسی ملک اس وباء کی زد میں ہیں ، راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ معاملات محض نشستند و گنتند و بر خاستند تک محدود تھے۔ اب اس مودی مرض نے سر اٹھا لیا ہے اور متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ تا دم تحریر اس وائرس کی روک تھام کا کوئی مستقل اور منظم حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمارے عوام ریاست سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں کہ اس وباء پر قابو پا لیا جائے گایا کم از کم عمومی رویہ یہی ہے کہ یہ حکومت کی درد سری ہے ۔
پاکستانی قوم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس جیسے متعدی مرض کے سامنے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام بے بس ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں نے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کیــــ کے مصداق دنیا میں تباہی پھیلتی جا رہی ہے۔ایسے میں پاکستان جیسے بادیہ پیمان بے توشہ و صحرا نوردان ہوش باختہ کے لئے اس صورتحال سے نبرد آزما ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔حکومت کو معاشی، انتظامی اور سیاسی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے۔
ریاست شہریوں کے بچاوکے لئے حتی المقدور سعی کر رہی ہے۔ افواج پاکستان اس مشکل گھڑی میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈاکٹرز کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ تمام صوبائی حکمومتوں نے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا ہے۔ پوری ریاستی مشنیری اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔
ان تمام اقدامات سے بڑھ کر ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر عمل کیے بغیر تمام محنت کار لاحاصل ہوگی اور وہ یہ ہے کہ قوم اپنی مدد آپ کے جذبے سے سرشار ہو۔ قوم کا ہر فرد اس با ت کا احساس کرے کہ اس نے وائرس کے مہلک اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہے اور ودسروں سے اتنا فاصلہ ضرور رکھنا ہے کہ وائرس کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع نہ ملے۔ جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا اس وباء کی روک تھام ممکن نہیں ۔ معاشرہ چوں کہ افراد سے بنتا ہے اور افراد کا کردار اس نازک موقع پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ریاست سہولت کا ر کا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اصل جنگ عوام نے خود لڑنی ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد جہاد سمجھ کر اس وقت ذمہ دارانہ شہری کا کردار ادا کرے تو اس وباء کو مزید تباہی پھیلانے سے روکا جا سکتا ہے ۔
عمومی رویہ ہے کہ آفات و بلیات کے وقت انسان مذہب کی طرف مائل ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے ہاں سر بسجود ہو کر پناہ کا متلاشی ہوتا ہے۔ قوم کے ہر فرد کو توبہ اور دعا کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیرکو فرض سمجھ کر اختیار کرنا چاہیئے۔ جو شخص ایسے دگر گوں حالات میں ماہرین کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا وہ نہ اپنے ساتھ مخلص ہے اور نہ ہی دوسروں کا خیر خواہ ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام افراد کے درست رویوں سے مشروط ہے۔ لہذا قوم کے تمام افراد پر لازم ہے کہ اپنی مدد خود کریں اور اللہ تعالی سے خیر کی توقع رکھیں۔ جب تک ہر فرد اپنا کردار ادا نہین کرے گا۔ اللہ کی مدد کی امید رکھنا بھی عبث ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے؛ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
بقول ظفر علی خان
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭…٭…٭