مقام شکرہے کہ پاکستانی قوم اور اس کے تمام شعبۂ زندگی کی مقتدر اور سرکردہ قیادتیں کرونا وائرس کے نام سے ایسے عفریت کا حوصلے‘ صبر‘ تدبر اور اس جذبۂ ایمانی کے ساتھ مقابلہ کرنے میں سرگرم عمل ہیں کہ ’’زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ جہاں تک اس وبائی عفریت سے بچنے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے فخر دوعالم‘ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیؐ کی تعلیمات اور فرمودات کی روشنی میں احتیاط و پرہیز اور علاج کے ذرائع بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اب طشت ازبام ہو چکی ہے کہ کرونا وائرس کی وباء نے دنیا بھر کے قریباً تمام ممالک میں خطرے کی گھنٹی بجا رکھی ہے۔ کم سے کم ترقی پذیر بلکہ کسمپرسی میں مبتلا ممالک سمیت اعلیٰ ترین ترقی یافتہ ممالک میں بھی کرونا وائرس ایک خوفناک عفریت کے روپ میں اپنے پر پھیلا چکا ہے۔ بلاشبہ ان ممالک میں اس کے مہلک اثرات انسانی زندگیوں کو ہمیشہ کی نیند سلانے پر منتج ہو رہے ہیں اور وہاں کے طبی میدانوں میں تحقیق‘ تخلیق کے شہ دماغ اس وباء پر قابو پانے کی خاطر ’’تریاق‘‘ دریافت کرنے پر سر جوڑے ہوئے ہیں۔ اپنے بے پناہ وسائل سے مالا مال بہت سے ممالک وباء پر قابو پانے کی تگ و دو میں اپنے شہروں کو ’’بند‘‘ کرنے میں بھی بہت سنجیدہ ہیں۔ بعض اپنے ایسے پروگرام پر جزوی طورپر عمل پیرا ہو چکے ہیں مگر جہاں تک کم ترقی یافتہ یا کم وسیلہ غریب ممالک کا تعلق ہے‘ ان کیلئے اس حوالے سے اپنے شہروں کو بند کرنے سے لاتعداد انسانی مسائل کا دروازہ کھل جائے گا۔ جن کے نقصانات کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے ہم وطنوں کے نام ایک پیغام میں بڑی سچی اور کھری باتیں کی ہیں۔ انہوں نے دیگر باتوں سمیت یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ غریب آبادی انتہائی کسمپرسی میں چودہ پندرہ ہزار روپے ماہوار پر زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔ ان کا اور کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ اگر کرونا وائرس سے بچائو کے حوالے سے شہروں کو لاک ڈائون کیا جائے تو ’’دیہاڑی دار‘‘ گھرانوں کا روزگار کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ وباء سے بچاتے ہوئے ایسے گھرانے بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار کرا دیئے جائیں گے۔ اس لئے شہروں کے لاک ڈائون کی تجویز قابل عمل نہیں قرار دی جا سکتی۔وزیراعظم عمران کی یہ سوچ جس قدر سچی‘ اسی قدر عوام دوستی اور غریب پروری سے عبارت ہے اور اس سے پاکستان کے عوام کے حقیقی مسائل کی ترجمانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے عصری حالات کے حوالے سے ماضی کے آغاز سے لیکر گزشتہ حکومت تک کے ادوار کی سیاسی برسراقتدار قیادتوں کے قول و فعل کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ماضی کی کسی برسراقتدار قیادت نے واشگاف الفاظ میں قوم کی پچیس فیصد ایسی آبادی کی کسمپرسی کا ان الفاظ سے ذکر نہیں کیا جس سے اس آبادی کے کروڑوں مردوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کے نہ صرف خط غربت سے کم کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے کی بات ہو اور بیروزگار ہونے کی صورت میں پورے گھرانے کے لوگوں کا بھوک سے ہلاک ہو جانے کا خدشہ موجود ہو وزیراعظم عمران خان نے کم وسیلہ اورکسمپرسی میںزندگی گزارنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کی خاطر لاک ڈائون کے نظریہ کو مستردکرتے ہوئے وبا سے بچنے کے لئے جن احتیاط اور پرہیز کو اختیار کرنے کی تجاویز دی ہیں۔ انہیں بہرحال اختیار کرکے کوروناوائرس کو بے بس کرنے میں اللہ کی مدد حاصل ہو گی۔ خدا تعالی کے پیارے نبی ، رحمت دو عالم سرور کائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خودمتعدی امراض سے محفوظ رہنے کا درس دیتے ہوئے مریض سے ملنے جلنے میں احتیاط برتنے کی تلقین فرمائی ہے۔ خودکو حالیہ وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے میں احتیاط کرنا ہو گی۔ چھینک آنے پر رومال یا ٹشو پیپر منہ کے آگے رکھناہو گا۔ اگرچہ پاکستان کے مختلف صوبوںمیںکروبناوائرسکے مریض زیر علاج ہیں۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ اور اس کے پیارے محبوب رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معرض وجود میں آئے ہوئے پاکستان میں اس مہلک وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد قابلِ تشویش حد تک نہیں اور اس امر کا غالب امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ارض پاک اور اس میں بسنے والی امت پاکستانکی حفاظت کرتاہے۔ مگر اس سلسلے میں موجودہ ملکی برسرِ اقتدار قیادت کیلئے ضروری ہے کہ لاک ڈائون نہ کرکے غریب اور دیہاڑی دار خاندانوں کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے ساتھ ان غریب اور نادار ضعیف و مریض پنشنروں کا بھی خیال کرے جن کے علاج و معالجے کا دار ومدار ای او بی آئی کی پنشنوں پر ہے۔