سب سے پہلے تو ہمارے لئے خود کو خطرے میں ڈالنے والوں کے لئے سلام پیش کرنا چاہوں گی۔ یعنی اس وقت ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرامیڈیکل وہ سٹاف ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری جانیں بچانے کے لئے کوشاں ہے۔ کورونا سے دوسروں کو بچاتے بچاتے کئی ڈاکٹرز نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ یہ مجبوری نہیں بلکہ ان کا وہ جذبہ ہے جو ہمیں 65ء کی جنگ میں اپنے سپاہیوں کا نظر آیا تھا۔ یہ بھی کورونا کے خلاف جنگ میں سپاہی کی طرح میدان جنگ میں ہیں جہاں ساری دنیا اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ دوسری طرف سُرخ سلام ہے ۔ ان لاپروااور ہر خطرے سے بے نیاز ان عوام کو جو اس طرح کے خطرناک حالات میں بھی سڑکوں پر آوارہ گردی میں مصروف ہیں۔ لاک ڈائون کی دھجیاں اڑاتے اکثر لوگوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ بغیر کسی مقصد کے گھر سے نکلے ہوئے ہیں۔ آخر حکومتیں اور میڈیا کیا کرے، چوبیس گھنٹے خطرے کا الارم بجایا جا رہا ہے، تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ خدارا اپنے گھروں میں رہ کر خود اور اپنی فیملیز کو بھی محفوظ رکھیں اور دوسروں کو بھی خطرے میں مت ڈالیں۔ دنیا بھر میں دیکھ لیں 3 ارب لوگ کس طرح لاک ڈائون کی پابندی کر کے جہاں اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور مکمل تعاون کر رہے ہیں وہیں ہماری عوام کو لگام ڈالنے کے لئے شاید سڑکوں پر کان پکڑوانے کا طریقہ ہی زیادہ کارگر ثابت ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عوام کے زیادہ پریشان کرنے پر کرفیو لگانے کی نوبت بھی آ جائے۔ اور کرفیو جیسے حالات کا سامنا کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو گا۔ تو خدارا اس نازک صورتِ حال میں خود پر بھی ترس کھائیے اور دوسروں کو بھی محفوظ رہنے دیں۔ ڈاکٹر کیمبل کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق یہ وائرس انسانی جسم یا کسی بھی جاندار کے جسم سے باہر 48 سے 72 گھنٹے تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مطلب اگر کوئی کھلی ہوا میں کھانستا یا چھینکتا ہے۔ تو اس کے ناک اور منہ سے گرنے والا وائرس اگلے تین دن تک زمین یا کسی بھی تہہ پہ موجود رہتا ہے۔ اور اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر دو ہفتوں تک سارے لوگ اپنے گھروں تک محدود رہیں تو اس وائرس کا کوئی Host (انسانی جسم) نہیں ملے گا۔ اور وائرس اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس اگر سارے لوگ باہر گھومتے ہیں تو وائرس کو ایک سے ایک نیا ھوسٹ ملتا رہے گا۔ اور اس کی زندگی بڑھتی رہے گی۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ یہ وباء آپ اور آپ کے گھر والوں کی جان نہ لے تو خدارا اپنے گھروں میں رہئے۔ یہی وجہ ہے اپنے وہ تمام کام گھروں میں شروع کر لیجئے جن کو آپ سالہا سال سے کر نہیں پائے کہ وقت ہی نہیں مل پاتا۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریئے۔ جن سے تفصیل سے بات اور ملاقات کیلئے آپ کو ہفتوں گزر جاتے تھے۔ اللہ نے آپ کو ایک طرف خود سے اور اپنوں سے ملنے اور قریب تر رہنے کا سنہری موقع بھی فراہم کیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کم از کم ایسا واقعہ نہیں دیکھا کہ کسی وائرس کی وجہ سے پوری دنیا سے ایک دم برائی کا خاتمہ ہو گیا ہو۔ سمندر کے کنارے ویران ہو گئے۔ سڑکوں اور کلبوں میں آزادانہ عیاشیاں کرنے والے مقید ہو گئے۔ جوئے خانے بند ہو گئے۔ انسان کو انسانیت کی طرف لوٹا دیا اس وائرس نے۔ خدا کو بھولے ہوئے کو تسلی سے خدا کو یاد کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ سینما گھروں کی بجائے اب لوگ گھروں میں زیادہ آرام سے رہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں دنیا بھر میں سود کی شرح کم ہو گئی بلکہ تقریباً ختم ہو رہی ہے۔ شراب نوشی ختم ہو گئی۔ مُردار کھانے سے لوگوں نے توبہ کر لی۔ مُردار بیچنے والوں کا کام ختم ہو گیا۔ اور تو اور اسلام نے جہاں ہمیں صفائی کی بے حد تلقین کی ہے۔ اب ہر وقت صفائی کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ بار بار ہاتھ دھونے اور خود کو بلکہ گھروں اور اردگرد کی جگہوں کو صاف رکھنا بھی ہماری ضرورت بن چکا ہے۔ بڑے بڑوں کا غرور خاک میں مل گیا خواہ وہ سلطنتیں تھیں یا انسان۔ اب سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور خود کو بچانے کے لئے دُعاگو ہیں۔ کارخانوں اور ملوں کی زہریلی گیسوں کا خاتمہ ہو گیا اور اللہ کی باقی مخلوق نے پاک صاف قدرتی ہوا میں سکھ کا سانس لیا ہے۔ نقاب کرنا آ گیا۔ حجاب ضرورت بن گیا۔وزیر اعظم صاحب یقین رکھئے یہ قوم بھوک سے نہیں مر سکتی، یہاں اخلاص اور رواداری اور دوسروں کی مدد کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اگر یہ وباء پھیل گئی تو صورتحال یقینا قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اٹلی او راسپین کے حالات ہمارے سامنے ہیں، جس ملک میں 1500 وینٹی لیٹرز اور ان میں سے بھی آدھے خراب ہوں وہاں دوسری سہولیات کے فقدان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اٹلی جیسے ملک میں 35000 وینٹی لیٹرز کی موجودگی کے باوجود آج یہ حال ہے۔ پاکستانی حکومت کسی مغالطے میں نہ رہے۔