مسئلہ افغانستان کا پرامن حل 

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ اور سابق افغان وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار نے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سے ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا کہ افغانستان میں افغان عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کی تعمیرنو کے لئے مارشل پلان کی طرز پر امدادی پیکیج کا اعلان کریں۔ جو کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ کی جانب سے مغربی یورپ کی بحالی کے لیے دیا تھا۔افغانیوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے اور ملک کی حقیقی قیادت اور عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے۔حکمت یارکا کہنا تھا کہ افغانستان سے 95 فیصد نیٹو افواج واپس چلی گئی ہے اور باقی 5 فیصد افواج بھی جانے کے لئے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا افغانیوں کا ماضی اور حال گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سے ہی کسی بھی غیر ملکی جارح کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے شکست دی ہے۔ یہ سب کچھ افغان مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کی طاقت سے ممکن ہو سکا ہے۔افغانستان نے برطانیہ کو ماضی میں اس وقت شکست دی تھی، جب اس کی سلطنت مشرق میں آسٹریلیا اور مغرب میں امریکہ تک پھیلی ہوئی تھی۔افغانوں کی مزاحمت اور جذبہ جہاد کی وجہ سے سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، مگر آج وہ سپر پاور ہونے کے باوجود افغانستان سے جان چھڑانے کیلئے تگ و دو کر رہاہے۔ مسلم دنیا کے حوالے سے امریکی پالیسی یہ ہے کہ مسلم ممالک کو آپس میں لڑوا کر ان پر حکومت کی جائے۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ کر کے وہاں بھی اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔ مگر واشنگٹن کی یہ دونوں خواہشات ہی ادھوری رہ گئیں۔ افغانستان کے عوام کے جذبہ حریت کی وجہ سے پہلے امریکی افواج کو شکست ہوئی اور اب اس کی قائم کردہ حکومت کو بھی عوام قبول نہیں کر رہے۔ افغانستان کے عوام نے غربت اور افلاس کے باوجود ایمان کی دولت کو اپنی طاقت کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑی طاقتوں کو ہمیشہ سے ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔پاکستان اور افغان تعلقات کی جڑیں مشترکہ تاریخ، عقیدے، ثقافت اور روایات سے جڑی ہیں۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک میں جنگ ہورہی ہے۔ امت فرقہ واریت کے آسیب کی زد میں ہے۔ مغربی میڈیا کی یلغار سے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ امت تھی، جس نے صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی۔دراصل مسلمانوں کے زوال کی وجہ دین اور جہاد سے دوری ہے۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔ افغانستان کے حریت پسندوں نے ثابت کردیا کہ اگر ملت اسلامیہ حق پراستقامت سے کھڑی ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے سرنگوں نہیں کر سکتی۔ افغانستان میں امن کے لیے امریکیوں کو واپس جانا ہی ہوگا۔افغانستان میں امن کے قیام کا یہی واحد راستہ ہے۔ افغانستان میں امن چین یورپ، امریکہ اور خطے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آپس میں گہرے تجارتی مراسم ہیں۔ مستقبل میں گوادر پورٹ اس حوالے سے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ یہ راہداری افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے تجارتی معاہدوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔اسی لئے پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، کیونکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا رہتا ہے، اس حوالے سے پاکستان نے گذشتہ دنوں ٹھوس شواہ اور ثبوتوں پر مبنی ڈوزئیر بھی عالمی برادری کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔ افغانستان کی حکومت، افغان طالبان، خطے کے پڑوسی ممالک کو صورتحال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے سنجیدگی دکھانا ہوگی، ورنہ امریکی ایما پر بھارتی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے خطے کا مستقبل غیر یقنی صورتحال کا شکار ہو جائیگا اور باہمی دوریوں سے تعاون کے خاتمے سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ بھارت کے منفی اقدامات کی کئی وجوہات ہیں، لیکن اسوقت افغان امن عمل کو منفی طور پر متاثر کرنے کے لیے بھارتی منصوبہ ساز خطے کی صورتحال کو بگاڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ تاکہ کشمیر اور سی پیک سے توجہ ہٹا کر ترقی کے عمل کو روکا جا سکے۔ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ انتہائی اہم اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کر رہا ہے، جو بھارت میں تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔بھارت خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانے اور سازشیں کرنے کی بجائے اپنے ملک کے عوام کی غربت دور کرنے پر توجہ دے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیر آزاد ہو گا، فلسطین آزاد ہوگا اور افغانستان میں بھی آزادی اورامن کے پرچم لہرائیں گے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ موقف رہاہے کہ افغانستان میں قیام امن پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اسی تناظر میں متعدد بار باور کروایا جا چکا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کثیرالجہتی برادرانہ مراسم کا فروغ چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں دوطرفہ کوششیں بھی جاری ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی افغانستان کا دورہ کیا تھا اور وہاں بھی پاکستان نے یہی پیغام دیا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا اور مستقل امن کا خواہاں ہے۔ پاک افغان تعلقات اور تعاون نئی بات نہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین یکساں مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی اقدار ہیں، ہمیں ان اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے خطے میں بہتری کے لیے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن