’’گنگ ہیں زندہ دلان لاہور‘‘

دہلی شہر کے اجڑنے کے بعد جب میر تقی میر لکھنو پہنچے اورایک محفل مشاعرہ میں شمع ان کے سامنے آئی، تو اہل لکھنو میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ یہ کون حضرت ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ میر صاحب نے ڈبڈبائی آنکھوں سے محفل کو دیکھا اور یہ قطعہ پڑھا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔؎کیا بود و باش پوچھو ہو‘ پورب کے ساکنو!/ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے/دلی جو ایک شہر تھا‘ عالم میں انتخاب/رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے/اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا/ہم رہنے والے ہیں‘ اسی اجڑے دیار کے۔دہلی کی بات چل نکلی ہے لیکن مدعا دہلی شہر نہیں۔بندہ ناچیز یادگار سے شاہدرہ کی طرف اپنے غریب خانے کی طرف رواں دواں تھا۔ٹریفک کے رش میںگاڑی کچھوے کی رفتار سے چل رہی تھی۔آگے بہت رش لگ ہوا تھا اور سڑک کے بیچ ہجوم تھا، میں نے بالآخر گاڑی سائیڈ پر کھڑی کی اورباہر نکل آیا۔ ایک شخص سے پوچھا بھائی ماجرا کیا ہے۔ اس نے کہا ہم شہر لاہور اور اس کے باسیوں کیلئے‘‘جاگ میرے لاہور‘‘ کی مہم چلارہے ہیں۔ یہ سب لوگ شاہدرہ موڑ پراپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔ شہری زندگی کی تہذیبی داستان قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ شہری زندگی کی تہذیب کے تصورات کو آج کے عہد میں چکا چوند ہاوسنگ سوسائٹیوں سے منسلک کرکے دیکھا جانے لگا ہے اس انسلاک میں ہمارے مقتدر ادارے، اہل سیاست، بیوروکریسی، کارپوریٹ کلچر، سرمایہ داروں اور پراپرٹی ڈیلروں سمیت سبھی بالا دست طبقات برابر کے شریک ہیں۔ عملاً سبھی شہر دو حصوں میں منقسم ہیں ایک طبقہء اعلیٰ کا اور دوسرا حصہ وہ جس میں خلق خدا ذلت آمیز زندگی گزارتی ہے اور جو بے گناہی کے جرم میں زندگانی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تہذیب اور تہذیبی سرگرمیوں کی عملداری ہو وہاں شائستگی و وضعداری پروان چڑھتی اور آزادیء افکار جنم لیتی ہے۔ علم، ادب، ادبی محافل، تنقیدی بصیرت، تعمیری سوچ، فنون لطیفہ کا عروج، موسیقی و مصوری کا فروغ اور خور و نوش کے تکلفات ہر تہذیب و ثقافت کی جان، اقوام و ملک میں شائستگی و وضعداری اور عمدہ ذوق کی پہچان ہوا کرتے ہیں لیکن ان سبھی کو ہمارے ہاںممنوعہ باتوں میں شمار کیا جاتا ہے لہذا تہذیبی وراثت کی پامالی اور رخصتی کے بعد اب اگر ہمارے شہر اور شہری زندگی دونوں ہی اپنے تہذیبی و ثقافتی حوالوں سے بانجھ پن کا شکار ہورہے۔شاہدرہ اور گرد و نواح کی آبادیاں مسائل کا گڑھ بن چکی ہیں۔ شاہدرہ موڑ فلائی اوور کی تعمیر، امامیہ کالونی پھاٹک فلائی اوور کی تعمیر، شرق پور روڈ کی مرمت و تعمیر اور شاہدرہ میں کوڑا کرکٹ و گندگی نے علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔شاہدرہ جو کبھی بادشاہوں کی گزر گاہ تھی جہاں نور جہاں اور جہانگیر بادشاہ نے اپنی آخری آرام گاہ کے لئے جگہ کا انتخاب کیا جہاں چاروں طرف باغات اپنی بہار دکھاتے تھے اب نا اہل انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہے اور روایتی بے اعتناعی کارونا رورہی ہے۔ یہاں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے نہ گندے پانی کی نکاس کا معقول انتظام ہے۔شہریوں کو ٹرانسپورٹ دستیاب ہے نہ سستی تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولت۔ لاہور کا سب سے اہم اور گھمبیر مسئلہ اِس وقت گندگی اور جابجا پھیلا ہوا کوڑا کرکٹ ہے۔ سو سال پرانا بلدیہ کا ادارہ موجود ہے جو شہر میں صفائی کا انتظام کرتا تھا، مگر ان کمپنیوں نے مقررہ مدت سے قبل ہی کام چھوڑ دیا۔شہر کا دوسرا بڑا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ واسا شہریوں سے بھاری بل تو وصول کرتا ہے، پہلے جو بل دو ماہ بعد آتا تھا، اب وہ ہر ماہ آنے لگا ہے، یوں واسا نے بل دوگنا کردیئے ہیں مگر شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی میں یہ ادارہ قطعی ناکام رہا ہے۔ لوگوں کو گندا اور زہریلا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ چونکہ شہری علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینا اقتصادی طور پر سہل ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ توجہ شہری ترقی پر ہی مرکوز کی جاتی ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں ملک میں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جو نئے مسائل جنم دے رہا ہے۔ ملک میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ حل ہوجائے تو کاشتکاروں کی اجناس زبردستی حاصل کرلی جاتی ہے۔ ملک کے خزانے کو بھرنا ہو تو زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی مشینری پر ٹیکسوں کی رقم میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ کسان اجناس کی فروخت کیلئے منڈی جاتا ہے تو مارکیٹ کمیٹی کی فیس میں کئی بار اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دریائوں میں سیلاب آجائے تو شہری علاقوں کو بچانے کیلئے حفاظتی بند توڑ کر کھیتوں اور دیہات کو سمندر میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ حکومت ان سارے نقصانات کے ازالے کے بلندو بانگ دعوے کرتی ہے لیکن بے چار ے کاشتکار کو کچھ نہیں ملتا۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے دیہی عوام کو تھانیداروں، پٹواریوں اور بااثر افراد کے ذریعے جلسہ گاہ ضرور لے آتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ سادہ لوح دیہاتی اپنے ووٹ کی طاقت سے جاگیرداروں اور بااثر افراد کو حکومتی ایوانوں تک پہنچادیتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ممبران کی نصف سے کہیں زیادہ تر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔بقول شاعرزنداں زنداں شورِ انالحق‘ محفل محفل قلقلِ مے/خون تمنا دریا دریا‘ دریا دریا عیش کی لہر/دامن دامن رُت پھولوں کی‘ آنچل آنچل اشکوں کی/قریہ قریہ جشن بپا ہے‘ ماتم شہر بہ شہر۔۔۔

ای پیپر دی نیشن