بھارتی عزائم کے تناظر میں ہمیں اسکے ساتھ دوستی میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق پونچھ کراسنگ پوائنٹ پر پاکستان بھارت بریگیڈ کمانڈرز کی سطح پر اہم فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں لائن آف کنٹرول پر تعین شدہ نکات پر عملدرآمد کیلئے لائحہ عمل کا جائزہ لیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک کی فوج کے ڈی جی ایم اوز کا گزشتہ ماہ ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا تھا جس میں دونوں جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابرافتخار نے پاکستان بھارت ڈی جی ایم اوز کے مابین رابطے سے متعلق کہا تھا کہ ہر کوئی امن کا خواہش مند ہے۔ فائربندی برقرار رکھنا پہلا قدم ہے۔ ایل او سی پر پانچ سو میٹر کے اندر کوئی نئی دفاعی تعمیرات نہیں ہوں گی اور کسی چیک پوسٹ کو براہ راست ہدف بھی نہیں بنایا جائیگا۔ 
گزشتہ چند ماہ سے پاکستان بھارت سازگار تعلقات کی خوش آئند خبریں مقامی اور عالمی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں جس میں ایک عرب ریاست متحدہ عرب امارات کے کردار کا بھی شدومد کے ساتھ تذکرہ ہورہا ہے۔ اگر یہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت اپنے تمام دیرینہ تنازعات طے کرکے ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے رہنے اور باہم خوشگوار تجارتی‘ کاروباری‘ ثقافتی تعلقات استوار کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں جس سے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے راستے بھی کھلیں گے تو ان دونوں ممالک کے غریب و پسماندہ عوام اور پورے علاقے کی بہتری کیلئے اس سے زیادہ مستحسن اور کیا اقدام اور فیصلہ ہو سکتا ہے تاہم ہمیں پاکستان بھارت دیرینہ تنازعات کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان بھارت دوستی کے راستے کھولنے کے معاملہ میں کوئی گہری سازش اور چال کارفرما نظر آتی ہے۔ 
ابھی یہ کوئی دور کی بات نہیں کہ بھارت نے 27, 26 فروری 2019ء کو کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف فضائی جارحیت کا ارتکاب کیا جس پر اسے منہ کی کھانا پڑی مگر اسکے جارحانہ عزائم میں کوئی کمی نہ آئی اور اسکی سول اور عسکری قیادتوں نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اسے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے بڑے سانحہ سے دوچار کرنے کی زہریلی سازشوں کا عندیہ دیتی نظر آئیں۔ کنٹرول لائن پر دفاع وطن کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے سے سرشار عساکر پاکستان نے پاکستان کی حدود میں داخل ہونیوالے ہر بھارتی ڈرون جہاز کو مار گرایا اور روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی بھارتی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری پر بھی اسے مسکت جواب ملتا رہا ہے۔ پھر بھی بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور اس نے پانچ اگست 2019ء کو اپنے ناجائز زیرقبضہ کشمیر پر شب خون مار کر اسکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور باقاعدہ طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا۔ 
اس بھارتی اقدام پر عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے بڑھتے خطرات کا احساس ہوا تو انکی جانب سے اس تشویش کے اظہار کے ساتھ بھارت سے مقبوضہ وادی میں حالات پانچ اگست کی سطح پر واپس لانے کا تقاضا کیا جانے لگا مگر بھارت ٹس سے مس نہ ہوا۔ اور تو اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ نے جو بھارت کو امریکہ کا فطری اتحادی قرار دیتے نہیں تھکتے تھے‘ مودی کو براہ راست اور بالواسطہ چار بار ثالثی کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں مگر مودی سرکار نے یہ ساری پیشکشیں بھی رعونت کے ساتھ مسترد کر دیں۔ بھارت نے نام نہاد ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے ساتھ ہر سطح کے مذاکرات کے دروازے تو پہلے ہی بند کر رکھے تھے چنانچہ اس نے چار سال قبل اسلام آباد میں منعقد ہونیوالی سارک سربراہ کانفرنس بھی سبوتاژ کی اور پھر یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء کو پہنچا دی۔ اس صورتحال میں بھارت کا یکایک پاکستان کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بات چیت اور ایل او سی پر طے پانے والے تمام معاہدوں پر عملدرآمد پر آمادہ ہونا اسکی جانب سے کسی بڑے ’’ٹریپ‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہ فضا جوبائیڈن کی نئی واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں یواے ای کو معاون بنایا گیا ہے تو پھر اسے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے بھارت کو یواین قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنا ضروری ہے جس کیلئے پاکستان بھارت دوطرفہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کا اہتمام کرکے دوطرفہ اور علاقائی امن کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ ہو جائیگا جبکہ وہ تو مقبوضہ وادی کو اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا کر عملاً ہڑپ بھی کرچکا ہے۔ صرف یہی نہیں ہندوتوا کے نمائندے نریندر مودی بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کیلئے بنگلہ دیش جا کر پاکستان کو یہ کچوکے بھی لگا رہے ہیں کہ انہوں نے اور انکے ساتھیوں نے 1971ء میں مکتی باہنی کے کارکن کی حیثیت سے اسکی پاکستان توڑو تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اگر اسی تناظر میں مودی اور دوسرے بھارتی لیڈران کی پاکستان کو کسی دوسرے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کی گیدڑ بھبکیوں کا جائزہ لیا جائے تو انکی پٹاری سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں کے سوا کچھ نہیں نکلے گا اس لئے ہمیں شروع دن کے بھارتی سازشی ذہن کو پیش نظر رکھ کر اپنا دفاع مضبوط بنانا ہے اور ہمہ وقت چوکنا رہنا ہے۔ 
عساکر پاکستان دفاع وطن کے تحفظ کیلئے یقیناً تیار بھی ہیں‘ اسکے تقاضے نبھا بھی رہی ہیں اور پیشہ ورانہ خداداد صلاحیتوں سے مالامال بھی ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان نے زمین سے زمین تک مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل شاہین ون کا کامیاب تجربہ کرکے دشمن پر اپنی دفاعی صلاحیتوں کی مزید دھاک بٹھائی ہے جو پوری قوم کیلئے فخر و انبساط کا مقام ہے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز راولپنڈی میں لاجسٹک تنصیبات اور ورکشاپس کا دورہ کرکے وطن عزیز کی دفاعی صلاحیتوں کو سراہا ہے۔ بے شک ایک سفاک اور شاطر دشمن کے مقابل ہمیں دفاع وطن کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھنے ہیں۔ 
اگر پاکستان بھارت سازگار تعلقات کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش اور پیش رفت ہوتی ہے تو اس میں بھارت کے اخلاص کو جانچ کر اور اسکے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر آنے کی صورت میں ہی اسکے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع ہو سکتا ہے۔ ابھی یہ دیکھنا ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر ڈی جی ایم اوز کی سطح پر ہونیوالے فائربندی کے وعدے پر کب تک قائم رہتا ہے۔ اسکے بعد ہی سازگار ماحول میں بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...