پی ڈی ایم کے مستقبل پرچہ میگوئیاں پیپلز پارٹی کا سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ 

اسلام آباد (عترت جعفری) پی ڈی ایم  کے مستقبل کے بارے میں اس وقت سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہیں، پی پی  نے اس  صورتحال سے نکلنے کیلئے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس فوری بلانے کا مطالبہ کیا ہے تاہم پارٹی کے ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اگر استعفوںکے آپشن پر مسلم لیگ  ن اور جے یو  آئی کا اصرار اسی طرح برقرار رہا  اور پی پی پی کو کارنر کرنے کی پالیسی جاری رہی تو وہ اس اتحاد کے مستقبل کے  بارے میں زیادہ پرجوش نہیںہے جبکہ پی ایم ایل این اور جے یو آئی، پی پی پی کے سی ای سی کے انعقاد کی منتظر ہیں تاکہ پی پی پی اپنے مؤقف پر ایک بار پھر نظر ثانی کر لے جس کے بعد اپنا لائحہ عمل سامنے  لائیں گے، پی پی، پی ایل ایل اور  جے یو آئی کے اندرونی  ذرائع سے جب بات کی گئی تو  انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر پی پی پی نہ بھی ہو تو بھی اپنے پروگرام پر چلیں گے، پی پی پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ استعفوں  کا آپشن ان کی ترجیح  نہیں جبکہ اس ایشو پر انہوں نے راولپنڈی  میں سی ای سی میں غور کرنا تھا ،اب یہ اجلاس  راولپندی میںنہیں ہو رہا کیونکہ 4اپریل کا جلسہ ملتوی کر دیا گیا ہے ، ابھی پی پی نے حتمی اعلا ن کرنا ہے کہ اب یہ اجلاس  کب اور کہاں منعقد کیا جائے ،کرونا کیوجہ سے پہلے ہی پی پی پی نے سیاسی سرگرمیاں محدود کر دیں ہیںگڑھی خدا بخش میں 4 اپریل کو یہ اجلاس کرنا ہے  یا نہیں  یا اس کے ایجنڈے پر پی ڈی ایم  کا معاملہ رکھنا ہے یا نہیں اس پر مشاورت ہو رہی ہے، پی پی پی کا کہنا ہے کہ استعفوں کے ایشو پر اب مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور ان کے درمیان اب ایک واضح فرق ہے ، ان کا ماننا  رہے  پی ڈی ایم کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے جس کا اعتراف ابھی جماعتیںنہیں کر رہیں ہیں، جبکہ ای سی ای سی کے اجلاس کے بعد بھی فوری استعفے دینے کی تو ثیق کا کوئی امکان نہیں ہے، ان کا مؤقف یہ بھی ہے کہ ا تحاد کی دوسری چھوٹی  پارٹیاں بھی استعفوں کے حق میں  نہیں ہیں، پی پی پی کو اس بات کا شدید رنج ہے کہ اس کو پی ایم ایل(ن) سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر ’’ باپ‘‘ کی حمایت کا طعنہ دیا جا رہا ہے جبکہ پی ایم ایل ن نے پنجاب   میں  پی ٹی آئی کے  ساتھ الیکشن میں ایڈ جسٹمنٹ کی تو کسی نے اس پر نکتہ چینی نہیں کی، پی پی پی نے30  ارکان کے ساتھ  سینٹ اپوزیشن  لیڈر کی درخواست جمع کرائی جبکہ پی ایم ایل این کی درخواست پر صر ف 17ارکان کے دستخط تھے،’’باپ‘‘ کے ارکان نہ بھی ہوتے تب بھی پی پی پی ہی کا رکن نے اپوزیشن لیڈر بننا تھا ،قومی اسمبلی ،پنجاب اسمبلی میں پی ایم ایل این کے اپوزیشن لیڈر اسی فارمولہ پر بنے ہیں ،جبکہ اے این پی تو بلوچستان میں باپ کے ساتھ شریک اقتدار ہیں،اس لئے پی پی کو کارنر کرنے کے لئے مہم چلائی جا رہی ہے جس کو پارٹی سنجیدگی سے لے گی ،تاہم کو شش کی جائے گی کہ پی ڈی ایم کو زیادہ حقیقی اور زیادہ سیاسی مؤقف کی طرف لایا جائے ،پی پی پی کی سیاست کیوجہ ہے سے پی ڈی ایم ضمنی الیکشن اور خاص طور پر ڈسکہ الیکشن میںحکومت کو بیک فٹ پر کرنے میں کامیاب ہوئی اور اب بھی پارلیمان کی سیاست کے دباؤ سے ہی حکومت کو غلطی پرمجبورکیا جاسکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن