اپوزیشن جماعتیں جس طرح عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے درپے ہیں بظاہر اس پر اظہار اطمینان کرنا آسان نہیں، مثلا بین الاقوامی قرضو ں میں جکڑا ملک اہل سیاست سے ایسے طرزعمل کا متقاضی ہے جو دور رس مثبت اثرات کا حامل ہوں ۔ مثلا تقسیم ہند سے اب تک قومی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے ملک وقوم کو نقصان پہنچایاگیا ، کہنے کو تو بار بار عوام کا نام لیا گیا مگر سچ ہے کہ کسی طو ر کروڑوں پاکستانیوں کے صبح وشام نہ بدلے ، اب ایک بارعوام کا نام لیا جارہا ہے ، بلاشبہ جمہوری نظام میں تحریک عدم اعتماد حیران کن نہیں مگر اس کی کامیابی کا ناکامی کا عام پاکستانی کس قدر مثبت یا منفی اثر پڑے گا یہ بتانے کو کوئی بھی تیار نہیں، درپیش معاملہ کا قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر دونوں محاذ پر متحرک ہے ، ن لیگ نے لاہور سے لانگ مار چ کا آغاز کردیا ہے تو جمیت علماء اسلام (ٖف) کے قائدین بھی خبیر پختونخواہ اور سندھ سے اپنے کارکنوں کے قافلے لے کر اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں، اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ سے حکومت مخالف مارچ کرچکی جو بالاآخر دارلحکومت میں آخر اختیام پذیر ہوا، سیاسی جماعتوں کے لیے عوامی رابطہ مہم آکسیجن کا کام کیا کرتی ہے، اس عمل کے نتیجے میں وہ اپنے حمایتیوں کو ہی نہیں بلکہ مخالفین کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ رائج سیاسی کھیل میںان کی اہمیت بدستور برقرار ہے ، اب
قومی اسمبلی نے ایوان زیریں کا اجلاس پیر کو طلب کیا ہے ،قوی امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا عمل مکمل ہوجانے میںمذید تاخیر نہ ہوگی ، تادم تحریر وزیر اعظم پاکستان پر عزم ہیں کہ وہ اپوزیشن کے سیاسی وار کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر دوسری جانب ان کی جانب سے شروع کی جانے والی عوامی رابطہ مہم بتا رہی کہ عمران خان کا بی پلان بھی تیار ہے ، باخبر سیاسی حلقوںکا ماننا ہے کہ پانچ سال کی آئینی مدت سے قبل عمران خان کا وزارت عظمی کے منصب سے محروم کرنا عملا پاکستان تحریک انصاف کے لیے سودمند ثابت ہوگا، مثلا ملک کو جس قسم کے مسائل درپیش ہیں ان کا حل تنہا کسی سیاسی جماعت کے بس کا کام نہیں، بہت بہتر ہوتا اگر سیاسی قیادت باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کسی ایسے منصوبہ پر متفق ومتحد ہوجاتی جو پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا،نواب زادہ نصر اللہ خان نے ٹھیک ہی کہا تھا
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاوں سے ٹلی ہے
سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کو ان کے منصب سے ہٹا دیا جاتا ہے تو کیا وہ آرام وسکون سے گھر بیٹھ جائیں گے ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یوں یہ پیشن گوئی کرنا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب کے سیاسی ماحول میں بے یقینی اور تلخی میں اضافہ ہوگا،ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی وزیر اعظم نے سنئیر صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک اندازمیں کہا کہ وزیر اعظم کی کرسی سے محروم ہونے کے بعد وہ کسی طور پر مسلح افواج کے خلاف محاذ نہیں بنائیں گے ، سنئیر صحافیوں اور اینکرز کساتھ آف دی ریکارڈ بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں مسائل اور مشکلات کا باخوبی اندازہ ہے لہذا وہ جدوجہد کو سیاسی انداز میںجاری وساری رکھیں گے ، عمران خان نے صحافیوں کے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ پنجاب میںعثمان بزدار کی شکل میں جس شخصیت کو وزارت اعلی کے منصب پر فائز کیا گیا وہ شائد مناسب نہیں تھا ، سنئیر صحافی کے وی لاگ کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عثمان بزادار کو عارضی طور پر وزیر اعلی بنایا گیا تھا مگر بعدازاں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان کی شکل میں ایسے طاقتور گروپ سامنے آگے کہ کسی دوسرے شخص کو وزیر اعلی بنانے کا منصوبہ ملتوی کردیا گیا ‘‘۔ عمران خان جس انداز میں مختلف شہروں میں جلسے جلوسوں سے خطاب کررہے ہیںاس کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بدستور اپنے سیاسی خیالات یا نظریات پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں، مثلا وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ن لیگ ، پی پی پی اور جے یو آئی (ف) کی قیادت نے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا چنانچہ ان سے کسی طورپر ہاتھ نہیں ملایا جاسکتا، عمران خان ماضی کی طرح اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو آج جن بحرانوں کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ پی پی پی اور ن لیگ جیسی سیاسی پارٹیاں ہیں، ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات عمران خان کے اس نقطہ نظر کو اب قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ خبیر تا کراچی عوام کی معقول تعداد اب یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان نوازشریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے بہتر ہیں، اس پس منظر میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست عمران خان کے حق یا پھر مخالفت کے گرد گھوم رہی ہے ، آسان الفاظ میں یوں کہ اپوزیشن عمران خان کو وزارت عظمی سے محروم کرنے میں تو شائدکامیاب ہوجائے مگر عوام کا قابل زکر حصہ بدستور کپتان کا حمایتی رہ سکتا ہے