یوم پاکستان کے ناقابل فراموش لمحات کے موقع پر 23-22 مارچ کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی (وزرائے خارجہ) کے 48 ویں اجلاس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہوا۔ عالم اسلام کے اس غیر معمولی اجلاس میں فلسطین اور مسئلہ کشمیر کی بابت جن زریں خیالات کا اظہار کیا گیا اس پر مسلمانان عالم شاداں ہیں۔ معزز مہمانوں نے 23 مارچ کی پریڈ بھی دیکھی۔ پاکستان کو آئندہ تین برس کے لیے وزرائے خارجہ کونسل کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے۔ او آئی سی اجلاس میں منظور ہونے والی قراردادوں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو بہت زیادہ اہمیت ملی، مہمان مقررین کی اکثریت اتحاد‘ یکجہتی اور سامراج کے خلاف مشترکہ موقف کی بابت زور دیتی رہی ! پاکستان نے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اتحاد‘ اتفاق ‘ سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ اور یکساں موقف اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی طرف دھیان دلایا اجلاس اورقراردادوں کی منظوری اور پھر مشترکہ اعلامیہ سب کے سب اپنی جگہ خوش آئند ہے مہمان وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی گواہی دے رہی ہے کہ مسلمان لیڈر شپ نے درپیش مسائل حل کرنے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ او آئی سی کی وزراء خارجہ کونسل کی اب تک کی کارکردگی پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس میں اسلامی ملکوں خصوصاً فلسطین و کشمیر کے معاملات کے حل میں کوئی قابل زکر پیش رفت دکھائی دیتی ہے نا ہی اس حوالے سے کسی قسم کا حوصلہ افزاء فیصلہ سامنے آیا ہے مگر یہاں یہ بات ضرور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جب سے پاکستان کی طرف سے اسلاموفوبیا اور توہین رسالت کے حوالے سے دو ٹوک موقف عالمی سطح پر سامنے آیا ہے تب سے اوآئی سی کی آواز میں بھی طاقت آئی ہے جسے عالمی سطح پر سنا گیا بلکہ اسلامو فوبیا اور توہین رسالت کیخلاف عملی اقدامات بھی اُٹھائے گئے جن میں اقوام متحدہ میں نہ صرف اسلامو فوبیا ،توہین رسالت کیخلاف قرارد کا منظور ہونا ہے بلکہ ہر سال 15مارچ کا دن اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دینا جانا بھی شامل ہے جس کا سہرا پاکستان کے سر ہی بندھتا ہے اور یہی نہیں بلکہ اسلامی تعاون تنظیم کی آواز میں جو طاقت پیدا ہوئی ہے اور یہ آواز جو اب سُنی بھی جارہی ہے اس کا کریڈٹ بھی پاکستان ہی کے سر ہے جسے چھ ماہ میں دوسری مرتبہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کی کانفرنس کے انعقاد کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ یہ درست ہے کہ مسلمان ریاستیں اپنے وسائل اپنے مسائل کے حل کرنے پر خرچ کریں تو مسلم اسٹیٹ کو دوسروں کے دست نگر ہونا نہ پڑے۔ ہماری اپنی کمزواور داخلی انتشار کے سبب دوسروں کو مسلم اتحاد ویکجہتی میں نقب لگانے کی ہمت نہ ہوتی ۔ عراق ایران جنگ‘ کویت عراق تنازعہ‘ شام ‘ افغانستان‘ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کیا مسلم اتحاد کو چیلنج نہیں کر رہے۔ مسلمان عالم آج بھی سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں اس درجے پر نہیں جہاں سے ’’حاکمیت‘‘ اور فضلیت کا دروازہ کھلتا ہے۔ اپنے شاندار ماضی اور جاہ وحشمت کی بحالی کے لیے مسلم ریاستوں کو عظیم مفاد کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں پبلک میٹنگ میں مغرب کو للکارنے کی بجائے خود کو بہت زیادہ مضبوط بنانا ہے، ہماری مضبوطی ہی ہمارے موقف کو منوائے گی۔او آئی سی کو اقدام متحدہ اور نیٹو کی طرح مستحکم اور مضبوط ادارہ بنانا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہمارا کام صرف قراردادوں تک محدود ہی رہ جائے گا۔ قراردادوں کی منظوری سے مسائل حل ہوتے تو مسئلہ کشمیر اور فلسطین یوں اقوام متحدہ کا منہ نہ چڑا رہے ہوتے ۔روس اور یوکرائن جنگ اقوام متحدہ کی خاموشی کیا پیغام دے رہی ہے؟ وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ سیسہ پلائی دیوار بنے اور ایسی سرگرمی کے لیے ترکی‘ پاکستان اور سعودی عرب کو مسلمانوں کی توقعات پوری کرنا ہوگی۔